حجۃ الوداع سے واپسی میں غدیر خم پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا خطبہ: میں جس کا مولیٰ ہوں علی ؑ اس کے مولیٰ ہیں

اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا ( آئی ہرک) کا ’’۱۵۸۳‘‘ واں تاریخ اسلام اجلاس۔پروفیسرسید محمدحسیب الدین حمیدی کا لکچر

حجۃ الوداع سے فارغ ہونے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنے جملہ جاں نثاروں کے ہمراہ مدینہ طیبہ کی طرف عازم سفر ہوئے اور جب یہ نورانی کارواں غدیر خم کے مقام پر پہنچا تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سب کو یہاں ٹھہرنے کا حکم دیا۔غدیرخم وہ اہم مرکزی جگہ تھی جہاں سے جزیرہ عرب کے تمام اطراف و جوانب راستے جاتے تھے۔ایک روایت کے بموجب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے آگے چلے جانے والے قافلوں کو رکنے اور پیچھے رہ جانے والے قافلوں کے لئے انتظار کا حکم دیا۔ذی الحجہ کا مہینہ تھا، اٹھارہ تاریخ تھی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لئے اونٹوں کے پالانوں سے ایک ممبر تیار کیا گیا۔ممبر شریف پر چڑھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایک عظیم الشان خطبہ ارشاد فرمایا جس میں سیدنا علی المرتضیٰ ؑ کے فضل و کمال، امانت و دیانت، عدل و انصاف کے بارے میں اپنی زبان حقیقت بیان سے شہادت دی۔خطبہ غدیر خم کو مختلف انداز میں۹۰ صحابہ کرام نے روایت کی ہے۔ ان حقائق کا اظہار پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی جانشین شہزادئہ امام علی موسیٰ رضاؑڈاکٹر سید محمد حمید الدین شرفی  ؒ نے آج صبح ۱۰ بجے ’’ایوان تاج العرفاء حمیدآباد‘‘ واقع شرفی چمن ،سبزی منڈی قدیم اور ۱۲ بجے دن جامع مسجد محبوب شاہی مالاکنٹہ روڈ روبرو معظم جاہی مارکٹ میںاسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا (آئی ہرک) کے زیر اہتمام منعقدہ ’۱۵۸۳‘ویں تاریخ اسلام اجلاس میں واقعات غدیر خم پر لکچرمیں کیا۔پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی نے انگلش لکچر سیریز کے ضمن میں خطبہ غدیر خم کے مقدس موضوع پراپنا ’۱۳۰۷‘ واں سلسلہ وار لکچر دیا۔ پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی نے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خطبہ میں بعد حمد و ثناء کے ارشاد فرمایا کہ ’’اے لوگو! ممکن ہے کہ اللہ کا فرشتہ جلد آجائے اور مجھے قبول کرنا پڑے۔ میں تمہارے درمیان دو بھاری چیزیں چھوڑتا ہوں ایک اللہ کی کتاب جس کے اندرہدایت اور روشنی ہے۔ اللہ کی کتاب کو مضبوطی سے پکڑو۔ دوسری چیز میرے اہل بیت ہیں، میں اپنے اہل بیت کے بارے میں تمہیں اللہ کو یاد دلاتا ہوں‘‘۔ آخری جملہ کو حضور انور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تین دفعہ مکرر فرمایا۔اور روایتوں میں ایک فقرہ اکثر مشترک ہے ’’جس کو میں محبوب ہوں علی ؑبھی اس کو محبوب ہونا چاہئیے، الٰہی! جو علی ؑسے محبت رکھے اس سے تو محبت رکھ اور جو علی ؑسے عداوت رکھے اس سے تو بھی عداوت رکھ‘‘۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے تین دفعہ لوگوں سے یہ سوال فرمایا کہ ’’ کیا میں تم لوگوں کے درمیان سب سے زیادہ اولیٰ اور بہتر نہیں ہوں‘‘؟۔ تینوں مرتبہ صحابہ کرام نے جواب میں اس بات کی تصدیق کی اور اس کا اعتراف کیا۔ تو ممبر شریف پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی ؑ کا ہاتھ بلند کر کے ارشاد فرمایا ’’میں جس کا مولیٰ اور آقا ہوں ، علی ؑبھی اس کے مولیٰ اور آقا ہے۔ اے اللہ جو اس(حضرت علی ؑ) کا مددگار ہو تو بھی اس کا مددگار ہو جا اور جو اس (حضرت علی ؑ) سے دشمنی رکھے تو بھی اس سے دشمنی رکھیو۔ جو اس کی مدد کرے تو بھی اس کی مدد فرما ، جو اس کی اعانت کرے تو بھی اس کی اعانت فرما، جو بھی اس کو رسواء کرے تو تو بھی اس کو رسواء فرما اور وہ جہاں بھی ہو حق اور صداقت کو اس کا ساتھ بنا دے‘‘۔علاوہ ازیں صاحبزادہ سید محمد علی موسیٰ رضا حسینی حمیدی، صاحبزادہ سید محمد علی باقر حسینی حمیدی اور صاحبزادہ سید محمد علی موسیٰ کاظم حسینی حمیدی نے بھی غدیر خم پر شرف تخاطب حاصل کیا۔اجلاس کے اختتام سے قبل بارگاہ رسالت پناہی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں سلام حضرت تاج العرفاءؒ پیش کیا گیا۔ ذکر جہری اور دعاے سلامتی پر آئی ہرک کا’’۱۵۸۳‘‘ واں تاریخ اسلام اجلاس تکمیل پذیر ہوا۔ الحاج محمد یوسف حمیدی نے آخر میں شکریہ ادا کیا۔