خانہ کعبہ کی تعمیر، محبت الٰہی، فرزند کی قربانی حضرت سیدنا ابراہیم خلیل اللہ ؑکی حیات مبارکہ کے روشن پہلو

آئی ہرک کے ’’۱۵۸۱‘‘ ویں تاریخ اسلام اجلاس میں موضوعی مذاکرہ ’’حضرت ابراہیم علیہ السلام‘‘۔پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی کا لکچر

حیدرآباد ۔۹؍جون( پریس نوٹ)  اللہ تعالیٰ نے حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو عظیم المرتبت درجات کمال سے نوازا، اپنے حبیب خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا جد مکرم بنایا و نیز ابو الانبیاء اور اپنا خلیل قرار دیا ۔ حضرت ابراہیم  ؑ کو تعمیر کعبہ مشرفہ کا اعزاز بخشا اور اس کام میں آپ کے فرزند حضرت اسماعیل  ؑ کو معاونت کی سعادت عطا کی۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم ؑکے کھڑے ہونے کی جگہ یعنی مقام ابراہیمؑ کو مصلیٰ بنانے کا حکم دیا ہے۔ حضرت ابراہیمؑ کی دعائیں بارگاہ الٰہی میں بلا تاخیر قبول ہو جاتی تھیں ۔مکہ کو شہر امان اور اہلیان مکہ کو ثمرات مختلفہ سے نوازا جانا اور بعثت نبی آخر الزماں رسول رحمت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مکہ میں جلوہ گری اور انسانیت کی ہدایت کا منصب جس کی حضرت خلیل اللہ ؑ نے تمنا کی تھی اللہ تعالیٰ نے پورا فرما دیا۔ اللہ وحدہٗ لاشریک کی عبادت اور جملہ شرک و کفر اور ناپسندیدہ باتوں سے علیحدگی کی ہدایت حضرت ابراہیم ؑ کی تعلیم خاص تھی۔  حضرت ابراہیم علیہ السلام نے غرور و تکبر میں غرق ظالم و خود پرست بادشاہ نمرود کے روبرو پورے عزم نبوت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے خالق کائنات ہونے اور حیات و موت پر قدرت اور سورج پر اختیار کی حقیقتیں بیان کرکے اس کے ہوش و حواس گم کر دیئے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیمؑ کو دولت یقین سے مالا مال فرمایا تھا انھیں زندگی اور موت کی حقیقت دکھادی تھی اور زمین و آسمانوں میں اپنی پادشاہی یعنی قدرت کاملہ کے جلوے دکھاے۔ان خیالات کا اظہا رپروفیسر سید محمد حسیب الدین حسینی رضوی حمیدی جانشین شہزادہ امام علی ابن موسیٰ رضاؑ ڈاکٹر سید محمد حمید الدین حسینی رضوی قادری شرفی  ؒ نے آج صبح ۱۰بجے ’’ایوان تاج العرفاء حمیدآباد‘‘ واقع شرفی چمن ،سبزی منڈی اور ۱۲ بجے دن جامع مسجدمحبوب شاہی مالا کنٹہ روڈ، روبرو معظم جاہی مارکٹ میں اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا ( آئی ہرک) کے زیر اہتمام ’۱۵۸۱‘ ویں تاریخ اسلام اجلاس کے دونوں سیشنوں میں منعقدہ موضوعاتی مذاکرہ ’’حضرت ابراہیم علیہ السلام‘‘میں کیا ۔قرآن حکیم کی آیات شریفہ کی تلاوت سے مذاکرہ کا آغاز ہوا۔ نعت شہنشاہ کونین ؐپیش کی گئی ۔پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی نے بتایا کہ حضرت ابراہیم ؑ نے سب سے پہلے پیغام حق اپنے گھر والوں کو پہنچایا اس کے بعد قوم کو دعوت حق دی۔ اس کے جواب میں راعی اور رعایا نے انکار و برہمی کا اظہار کیا یہاں تک کہ آپ کو آگ میں جھونک دیا لیکن اللہ تعالیٰ نے اسی آتشکدہ کو گلکدہ بنا دیا اور اٖپنے خلیل ؑ کی سلامتی کا سامان فرمایا۔ حضرت ابراہیم ؑکو ان کی تمنا کے موافق اولاد صالح یعنی حضرت بی بی ہاجرہؑ کے  بطن اطہر سے حضرت اسماعیل ؑ اور حضرت بی بی سارہؑ کے  بطن مبارکہ سے حضرت اسحٰق  ؑکی صورت میں سرفراز کیا۔ حضرت ابراہیم ؑنبی برحق، صاحب صدق، حلیم الطبع، خلیق، صالح اور اللہ کے خلیل تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں قلب زندہ عطا فرمایا تھا وہ جویاے حق تھے اس وجہ سے ان کے لئے عرفان ذات مولیٰ تعالیٰ کے تمام راستے منور اور سارے مراحل آسان ہوگئے۔ حضرت ابراہیم ؑ نے ایک دن اور ایک رات کے فکر و تدبر کے بعد حقیقت کو پالیا پھر اپنی ساری زندگی اعلاء کلمۃالحق کے لئے وقف کردی۔ اللہ وحدہ لاشریک کی قدرت کاملہ اور اختیار مطلق کے جلوے ان کے لئے خاص تھے۔ حضرت ابراہیم ؑ جس قوم، خاندان اور ماحول میں تھے وہاں کواکب پرستی کا زور تھا آپ نے ببانگ دہل ستارہ پرستی، مظاہر پرستی، بت پرستی کے خلاف آواز اٹھائی اور اپنی عملی جد و جہد سے خداے یکتا پر ایمان لانے کی انہیں موثر ترغیب دی۔ اس پر قوم آپ سے جھگڑنے لگی لیکن آپ نے کسی کی بھی پرواہ نہ کی اور اپنے منصب خاص کی ذمہ داریوں کو کما حقہٗ پورا فرما دیا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم ؑ کو اوران کی دعوت کو کامیابی عطا فرمائی جب کہ نمرود اور اس کی گمراہ قوم کو ان کے شرک و کفر ، ظلم و جبر کی عبرت ناک سزا دی۔پروفیسر سیدمحمد حسیب الدین حمیدی نے کہا کہ اللہ کی راہ میں ہجرت حضرت ابراہیم علیہ السلام کا خاصہ ہے آپ نے اپنے مولد سے حاران، فلسطین اور مصر کی طرف ہجرت فرمائی بعد ازاں فلسطین کو اپنا مرکز ہدایت بنا یا۔ حضرت ابراہیم ؑ پر ایمان لانے والوں میں آپ کی شریک حیات حضرت بی بی سارہ ؑاور آپ کے بھتیجے حضرت لوطؑ سبقت رکھتے ہیں جب کہ حضرت بی بی ہاجرہؑ بھی نعمت ایمان سے مالا مال ہوئیں۔ اللہ کے فضل و کرم سے اپنی دعائوں سے مانگی ہوئی اولاد یعنی حضرت اسماعیل ؑ کو بحکم الٰہی قربان کر دینا حضرت ابراہیم  ؑکی حیات مبارکہ کا سب سے بڑا اور یادگار واقعہ ہے اللہ تعالیٰ نے دنبہ کے ذبیحہ کے ذریعہ اس ذبح عظیم یعنی قربانی کو قبول فرمایا اور بطور یادگار اسے ہمیشہ کے لئے باقی رکھا۔ اجلاس کے اختتام سے قبل بارگاہ رسالت پناہی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں سلام حضرت تاج العرفاءؒ پیش کیا گیا۔  ذکر جہری اور دعا ے سلامتی پر آئی ہرک کے’’۱۵۸۱‘‘ویں تاریخ اسلام کے دونوں سیشنز اور سالانہ موضوعی مذاکرہ ’’حضرت ابراہیم علیہ السلام‘‘ اختتام پذیر ہوا۔جناب الحاج یوسف حمیدی نے آخر میں شرکاء کا شکریہ ادا کیا۔