حلف الفضول کے عہد ’’ہم ہر مظلوم کی اس وقت تک مدد کریں گے جب تک کہ اسے اپنا حق نہیں مل جاتا‘‘ کو

 سرکارپاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بہت پسند فرمایا

اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا ( آئی ہرک) کا ’’۱۵۸۸‘‘ واں تاریخ اسلام اجلاس۔پروفیسرسید محمدحسیب الدین حمیدی کا لکچر

حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے سفر شام کے دوران مسیحی راہبوں، زرتشتی علماء کے مناظروں کے علاوہ الگ الگ عقائد و نظریات سے متعلق مشاہدہ فرمایا نیز رسوم و رواج اور عام معاشرتی حالات کا بھی مشاہدہ فرمایا۔ شام سے مراجعت کے بعد حضور انور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے عرصہ دراز تک پھر کہیں سفر نہیں کیا۔ البتہ حرمت والے مہینوں میں سالانہ بازاروں اور میلوں میں انسان اور زندگی کے مشاہدہ کے لئے تشریف لے جایا کرتے۔ عجائبات پر غائرانہ نظر اور معقول و سنجیدہ امور پر غور و تدبر فرمایا کرتے۔ حشو و زوائد سے عدم التفات فرماتے۔ ان بازاروں میں نسلی تفوق اور یہود و نصاریٰ کے طریقہ تبلیغ پر خصوصی توجہ دیا کرتے۔ حضور انور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ہمیشہ بت پرستی سے دوری اور مشرکانہ رسوم سے بے تعلقی کا رویہ پسند خاطر ہوتا۔ حضور انور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کبھی مشرکانہ افعال میں مشغول لوگوں سے راہ و رسم نہیں رکھا۔فجر ثانی جو ہوازن اور کنانہ کے درمیان ہوئی تھی اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عمر شریف ۲۰ سال تھی۔اس جنگ کے بعد فریقین کے درمیان معاہدہ عدم جنگ پر اتفاق ہوا جسے حلف الفضول کہا جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس میں شرکت کی تھی اور اسے بے حد پسند فرمایا تھا کیونکہ اس میں یہ عہد ہوا تھا کہ ’’ہم ہر مظلوم کی اس وقت تک مدد کریں گے جب تک کہ اسے اپنا حق نہیں مل جاتا‘‘۔ اس عہد کے لئے سب سے پہلے حضور انور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچا حضرت زبیر بن عبد المطلبؓ نے آواز اٹھائی تھی۔ان حقائق کا اظہار پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی جانشین شہزادئہ امام علی موسیٰ رضاؑڈاکٹر سید محمد حمید الدین شرفی  ؒ نے آج صبح ۱۰ بجے ’’ایوان تاج العرفاء حمیدآباد‘‘ واقع شرفی چمن ،سبزی منڈی قدیم اور ۱۲ بجے دن جامع مسجد محبوب شاہی مالاکنٹہ روڈ روبرو معظم جاہی مارکٹ میںاسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا (آئی ہرک) کے زیر اہتمام منعقدہ ’۱۵۸۸‘ویں تاریخ اسلام اجلاس میں سیرت سید کونین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر لکچرمیں کیا۔ پروفیسرسید محمد حسیب الدین حمیدی نے ایک آیت جلیلہ کا تفسیری ، ایک حدیث شریف کا تشریحی اور ایک فقہی مسئلہ کا توضیحی مطالعاتی مواد بھی پیش کیا۔انھوں نے انگلش لکچر سیریز کے ضمن میں حیات طیبہؐ کے مقدس موضوع پراپنا ’۱۳۱۲‘ واں سلسلہ وار لکچر دیا اورسیرت ائمہ اہل بیت ؑ کے تسلسل میں سیدنا امام محمد الباقر ابن علی ابن حسین علیھم السلام کے احوال شریف پر لکچر دئیے۔اپنے لکچر کے دوسرے حصہ میں پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی نے بتایا کہ امام محمد الباقر علیہ السلام امام عالی مقام سبط رسول امام حسین علیہ السلام کے نبیرہ اور امام علی زین العابدین علیہ السلام کے بڑے صاحبزادے تھے۔ ایک روایت کے مطابق آپ کی ولادت شریف یکم؍رجب ۵۷ھ میں مدینہ منورہ میں ہوئی۔ آپ کی والدہ ماجدہ حضرت امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کی صاحبزادی حضرت فاطمہؓ  تھیں۔ اس طرح امام حسن علیہ السلام آپ کے نانا محترم تھے۔ امام اہلبیت میں آپ پانچویں امام ہیں۔ آپ کو باقر العلوم کہا جاتا تھا کیونکہ آپ علم کو مکمل طور پر کھول کر بیان کرتے تھے۔ سرکار پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت جابرؓ سے فرمایا کہ ’’اے جابر! تم اتنی عمر پائو گے کے تم میری عترت میں محمد ؑ بن علی ؑ بن حسینؑ بن علیؑ کو دیکھوگے جنھیں توریت میں الباقر رکہا گیا ہے۔جب تم ان سے ملو تو انھیں میرا سلام پہنچانا‘‘۔ جب حضرت جابرؓبہت برسوں بعد امام محمد الباقرؑ کو دیکھا تو کہا کہ میں ان میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صفات دیکھ رہا ہوں۔ اور آپ نے انھیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا سلام پہنچایا۔ایک روایت کے مطابق حضرت امام محمد باقرؑ کربلا میں اپنے والد ماجد حضرت امام علی زین العابدینؑ کے ساتھ موجود تھے۔ اس وقت آپ کی عمر شریف ۳ برس تھی۔ امام محمد باقرؑ اپنے کسب کے لئے بہت مشہور تھے۔ آپ محنت کر کے گھر اور آپ سے جڑے ہوئے لوگوں کی کفالت کرتے تھے۔ مشہور ہے کہ آپ کی شہادت زہر سے ہوئی۔ عباسی حکمران ہشام پر آپ کو قتل کروانے کا الزام ہے۔ ۷؍ ذی الحجہ ۱۱۴ھ میں آپ کی شہادت ہوئی۔ علم، عبادت، ریاضت میں آپ کا کوئی جواب نہیں تھا۔ ساری عمر مولا تعالیٰ کی بندگی، اطاعت و رضا میں گذار دی۔ جو آپ کے پاس حاضر ہوتا ہدایت اور علم سے سرفراز ہوتا۔ ساری امت کی آپ نے ہدایت فرمائی۔ اپنے آپ کو ہر وقت رضائے مولا تعالیٰ ، رسول اللہؐ، مولا علیؑ اور مولا حسینؑ میں مشغول رکھا۔آ پ کے القاب میں الباقر، الشاکر، اور الہادی مشہور ہیں۔ آپ کی کنیت ابو جعفر تھی۔ جنت البقی میں اپنے والد حضرت علی زین العابدین علیہ السلام کے پہلو میں آرام فرما ہیں۔اجلاس کے اختتام سے قبل بارگاہ رسالت پناہی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں سلام حضرت تاج العرفاءؒ پیش کیا گیا۔ ذکر جہری اور دعاے سلامتی پر آئی ہرک کا’’۱۵۸۸‘‘ واں تاریخ اسلام اجلاس تکمیل پذیر ہوا ۔الحاج محمد یوسف حمیدی نے آخر میں شکریہ ادا کیا۔