حضرات حسنین کریمین ؑ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حسن و جمال اقدس کے مظہر اور سیرت طیبہ کے نمونہ کامل

اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا ( آئی ہرک) کا ’’ ۱۵۸۶‘‘ واں تاریخ اسلام اجلاس۔پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی کا لکچر

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی لخط جگر یعنی شہزادیٔ کونین خاتون جنت سیدہ فاطمہ زہراعلیہا السلام اور امیر المومنین ابوالائمہ سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کے فرزند اکبر حضرت سیدنا امام حسن علیہ السلام کی ولادت با سعادت نصف ماہ رمضان سنہ ۳ھ بمقام مدینہ منورہ ہوئی۔ حضرت امام حسنؑ کی کنیت ابو محمد تھی۔ حضرت امام حسن ؑ کی پیدائش کی خبر نے سرور کونین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بہت مسرور کیا۔ چنانچہ حضورانور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بہ نفس نفیس کاشانہ زہر ا  ؑمیں رونق افروز ہوئے اور فرمایا کہ نومولود کو مجھے دکھانا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کا نام حسن رکھا۔ حضرت امام حسن ؑ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شکل و شباہت میں بہت ملتے جلتے تھے، اسی بناء پر’’ شبیہہ رسولؐ‘‘ سے ملقب ہوئے۔  حضرت امام حسن ؑ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بہت چہیتے اور محبوب تھے۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انھیں ہمیشہ اپنے نزدیک رکھا کرتے ، بڑی محبت و شفقت خاص سے تربیت فرمائی۔ حضرت امام حسن ؑ کو اکثر اپنی آغوش یا شانہ مبارکہ پر بٹھائے باہر برآمد ہوا کرتے۔ نماز میں حضرت امام حسن ؑ ، حضور اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے لپٹ جایا کرتے۔ حضورپاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم انھیں اپنے سینہ اقدس اور پشت مطہر پر بٹھا لیا کرتے۔ اکثر سجدہ کی حالت میں حضرت حسن ؑ، حضور انور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پشت مبارک پر سوار ہو جایا کرتے تھے۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سجدہ کو طویل فرمادیا کرتے۔   حضرت سیدنا امام حسن ؑ نے حضرت علی لمرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کی شہادت کے بعد خلافت کی گراں بہا ذمہ داریاں سنبھالیں۔ مسلمانوں نے حضرت سیدنا امام حسنؑ کے دست مبارک پر بیعت کی۔ آپ نے ایک خاص مدت تک اپنے فرائض بحسن و خوبی انجام دینے کے بعد جمادی الاولیٰ اور ایک روایت کے مطابق ربیع الاول ۴۱ھ میں سبکدوشی اختیار فرمائی اور تادم زیست مدینہ منورہ ہی میں رہے۔ حضرت سیدنا امام حسن ؑکو زہر دیا گیا،اس واقعہ کے بعد آپ نے شہادت پائی۔ حضرت سیدنا امام حسنؑ نہایت بردبار، متین، سنجیدہ، باوقار، متحمل، صابر و شاکر تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت سیدنا امام حسن ؑاور حضرت سیدنا امام حسین ؑ کے متعلق فرمایا کہ یہ میرے دنیا کے دو پھول ہیں اور جوانان جنت کے سردار ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دلبند و سبط اصغر حضرت سیدنا امام حسینؑ شعبان المعظم سنہ ۴ ھ میں تولد ہوئے۔ حضرت سیدنا امام حسینؑ کی کنیت ابو عبداللہ تھی۔حضرت سیدنا امام حسینؑ کی ولادت با سعادت کی خوش خبری نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو بے حد شاداں کیا۔ حضور انور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے نو مولود کو شہد چٹایا اور اپنی زبان مبارک سے ان کے دہن کو تر کیا۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کا نام حسین رکھا۔ حضرت امام حسنؑ کی طرح حضرت امام حسین ؑ بھی حضور پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بے حد عزیر اور محبوب تھے۔ دونوں اکثر سینہ مبارک پر چڑھے کھیلا کرتے تھے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم انہیں اپنے شانوں پر بٹھا لیا کرتے۔ حالت نماز میں بھی چہیتے نواسے جدا نہیں ہوتے۔ رکوع میں پیروں سے لپٹ جاتے، سجدہ میں پشت اقدس پر راکب نظر آتے۔ان حقائق کا اظہار پروفسیر سید محمد حسیب الدین حمیدی جانشین شہزادئہ امام علی موسیٰ رضاؑڈاکٹر سید محمد حمید الدین شرفی  ؒ نے آج صبح ۱۰ بجے ’’ایوان تاج العرفاء حمیدآباد‘‘ واقع شرفی چمن ،سبزی منڈی قدیم اور ۱۲ بجے دن جامع مسجد محبوب شاہی مالاکنٹہ روڈ روبرو معظم جاہی مارکٹ میں منعقدہ دوسرے سیشن میں اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا (آئی ہرک) کے زیر اہتمام منعقدہ ’۱۵۸۶‘ویں تاریخ اسلام اجلاس کے دونوں سیشنوں میں فضائل اہل بیت اطہار ؑکے مقدس موضوع پر لکچرمیں کیا۔ پروفیسرسید محمد حسیب الدین حمیدی نے ایک آیت جلیلہ کا تفسیری، ایک حدیث شریف کا تشریحی اور ایک فقہی مسئلہ کا توضیحی مطالعاتی مواد پیش کیا۔ پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی نے سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے بتایا کہحضور اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’حسین ؑ مجھ سے ہے اور میں حسین ؑ سے ہوں‘‘۔  حضرات خلفائے ثلاثہؓ اپنے عہد میں حضرات حسنین کریمین ؑکا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نواسوں اور چہیتے ہونے کے لحاظ سے بڑا پاس کیا کرتے اور ان سے دلی محبت رکھا کرتے تھے۔ حضرت امام حسینؑ نے اپنے والد بزرگوارؑ کی اطاعت و فرمانبردرای کی روشن مثال قائم فرمائی۔ حضرت سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کی شہادت کے بعد اپنے برادر کلاں کے ساتھ بھی اطاعت و محبت کا معاملہ رکھا اور ان کے ہر فیصلہ پر تسلیم و قبولیت کا رویہ اپنایا۔ نہایت حساس اور نازک موقعوں پر بھی ان کی مرضی کا پورا احترام کیا۔ حضرت سیدنا امام حسین،ؑ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے مشابہ تھے۔ حضرت امام حسینؑ انتہائی متواضع تھے، غرباء و مساکین کے ساتھ نشست اور تناول طعام فرماتے۔ لوگوں کے قصور معاف کر دیتے۔ آپ کی زندگی اطاعت الٰہی اور اسوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا نمونہ تھی۔ حضرت امام حسین ؑ حق پرست، حق نگر، حق شناس اور حق گو تھے۔ اظہار حق کے ضمن میں ان میں بڑی جراء ت اور جسارت تھی، وہ باطل کے آگے کبھی نہ جھکے۔ فن خطابت میں حضرت امام حسین ؑ کا مرتبہ بہت بلند تھا۔ اس دور کے ممتاز خطیبوں میں آپ نمایاں تھے۔ واقعہ شہادت کے سلسلہ میں حضرت سیدنا امام حسین ؑ کے خطابات اپنی معنویت، جامعیت اور اثر انگیزی کے لحاظ سے جواب نہیں رکھتے۔ آپ نہایت بلند مرتبت شاعر بھی تھے۔ ادب کی کتابوں میں آپ کے حکیمانہ اشعار ملتے ہیں۔ حضرت سیدنا امام حسین ؑکے اخلاق و حکمت پر مشتمل کلمات ہر دور میں زبان زد خاص و عام رہے۔ ان کلمات مبارکہ میں سے چند یہ ہیں٭ حسن خلق عبادت ہے ٭ رازداری امانت ہے  ٭خاموشی زینت ہے ٭ سچائی عزت ہے ٭جھوٹ عجز ہے ٭ بخل فقر ہے ٭سخاوت دولت مندی اور نرمی عقلمندی ہے۔ حضرت سیدنا امام حسین ؑکی شہادت کا واقعہ یوم عاشوراء یعنی ۱۰؍محرم الحرام سنہ ۶۱ھ کو بمقام کربلا پیش آیا۔ آپ نے راہ حق میں سارا کنبہ نذر کردیا یہاں تک کہ اپنی جان کی قربانی پیش کردی لیکن جابر و ظالم حکومت اور باطل کے آگے نہ سر جھکا یا اور نہ ان سے سمجھوتہ کیا۔ اجلاس کے اختتام سے قبل بارگاہ رسالت پناہی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں سلام تاج العرفاءؒ پیش کیا گیا۔ ذکر جہری اور دعاے سلامتی پر آئی ہرک کا’’۱۵۸۶‘‘ واں تاریخ اسلام اجلاس تکمیل پذیر ہوا ۔الحاج محمد یوسف حمیدی نے ابتداء میں تعارفی کلمات کہے اور آخر میں شکریہ ادا کیا۔