حضرت جابر بن عبد اللہ انصاریؓ امام عالی مقام امام حسین علیہ السلا م کی مزار پاک کے پہلے زائر

اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا ( آئی ہرک) کا ’’۱۵۹۲‘‘ واں تاریخ اسلام اجلاس۔پروفیسرسید محمدحسیب الدین حمیدی کا لکچر

 حیدرآباد ۔۲۵؍اگسٹ( پریس نوٹ) حضور امام عالی مقام امام حسین علیہ السلام، آپ کے خانوادیؑ اور اصحابؓ کی شہادت ۱۰؍محرم ۶۱ھ میں میدان کربلا میں ہوئی۔ امویوں نے خاندان رسالتؐ کے چشم و چراغ حضرت امام علی ابن حسین زین العابدین علیہما السلام اور سیدہ بی بی زینب بنت مولائے کائنات علیہما السلام سمیت دیگر اصحابؓ کو اسیر بنالیا اور ان کو پہلے کوفہ اور پھر وہاں سے دمشق روانہ کیا۔ مولا امام عالی مقام امام حسین علیہ السلام اور تمام شہدائے کربلاکے سر بھی کربلا سے کوفہ اور پھر وہا ںسے دمشق شام کو یزید پلید کے دربار میں لائے گئے پھر چند روزوہاں پر قیام کے بعد یہ کاروان اہل بیت نبی صلی اللہ علیہ وآ لہ وسلم واپس مدینہ منورہ روانہ ہوا۔ ایک روایت کے مطابق مدینہ منورہ پہنچنے سے پہلے امام زین العابدین علیہ السلام اور تمام اسیران کربلا واپس کربلا آئے اور امام حسین علیہ السلام کے سر اقدس کو آپ کے جسم اطہر کے ساتھ آپ کی مزار اقدس میں رکھا۔ یہ ۲۰؍ صفر ۶۱ھ میں ہوا اور یہی اربعین کی ابتداء رہی۔ اہل بیت اطہار ؑاور ان کے اصحاب مشہور صحابی حضرت جابر بن عبد اللہ انصاریؓ اور بنو ہاشم کے چند افراد سے ملاقات کی۔ بعض مورخین لکھتے ہیں کہ حضرت جابر بن عبد اللہ انصاریؓ امام عالی مقام امام حسین علیہ السلام کے کربلا میں پہلے زائر ہیںاور آپ ہی کو ’’اربعین حسینیؑ ‘‘ کا بانی کہا جاتا ہے دوسری روایت یہ ہے کہ اہل بیت اطہاریعنی امام زین العابدین ؑ،حضرت سیدہ بی بی زینبؑ اور دیگر آل نبیؐ کربلا کو بہت بعد میں پہنچے۔ ایک روایت یہ ہے کہ اس سال مدینہ منورہ روانہ ہوئے اور دوسرے سال یعنی ۶۲ھ کو کربلا پہنچ کر زیارت کی۔ اور اس تاریخ سے آج تک امام عالی مقام سید الشہداء امام حسین علیہ السلام اور تمام شہدائے کربلاؑ کی اربعین میں زیارت کا سلسلہ جاری ہے۔ اس میں بہت سیاسی دور ایسے بھی آئے ہیں جس میں اس زیارت پر پابندی لگائی گئی۔ مگر پھر بھی عاشقان رسولؐ اور اہل بیت ؑ اس زیارت کو جاری رکھے ہوئے ہیں اور امام حسین علیہ السلام اور شہدائے کربلاؑ کی زیارت کو اپنی شفاعت کا وسیلہ بنائے ہوئے ہیں۔ ان حقائق کا اظہار پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی جانشین شہزادئہ امام علی موسیٰ رضاؑڈاکٹر سید محمد حمید الدین شرفی ؒ نے آج صبح ۱۰ بجے ’’ایوان تاج العرفاء حمیدآباد‘‘ واقع شرفی چمن ،سبزی منڈی قدیم اور ۱۲ بجے دن جامع مسجد محبوب شاہی مالاکنٹہ روڈ روبرو معظم جاہی مارکٹ میںاسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا (آئی ہرک) کے زیر اہتمام منعقدہ ’۱۵۹۲‘ویں تاریخ اسلام اجلاس میںاربعینِ امام حسین علیہ السلام کی تاریخ پر لکچرمیں کیا۔پر وفیسرسید محمد حسیب الدین حمیدی نے ایک آیت جلیلہ کا تفسیری ، ایک حدیث شریف کا تشریحی اور ایک فقہی مسئلہ کا توضیحی مطالعاتی مواد بھی پیش کیا۔انھوں نے انگلش لکچر سیریز کے ضمن میں حیات طیبہؐ اور اربعین حسینیؑ کے مقدس موضوع پراپنا ’۱۳۱۶‘ واں سلسلہ وار لکچر بھی دیا اورسیرت آئمہ اہل بیت ؑ کے تسلسل میںحضرت سیدنا امام محمد تقی علیہ السلام کے احوال شریف پر لکچر دئیے۔اپنے لکچر کے دوسرے حصہ میں پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی نے بتایا کہ حضور امام محمد ابن امام علی رضا علیھما السلام ائمہ اہل بیت ؑ کے نویں امام ہیں۔ آپ امام محمد تقی ؑ اور امام جواد ؑ سے مشہور ہیں۔ آپ کی کنیت ابو جعفر الثانی ہے۔۱۰؍رجب ۱۹۵ھ میں مدینہ منورہ میں تولد ہوئے۔ آپ کے والد ماجد حضور امام علی ابن موسیٰ رضا علیہ السلام اور والدہ ماجدہ حضرت سیدہ بی بی سبیکاؓ تھیں۔ آپ مولا امام عالی مقام حسین علیہ السلام کی چھٹویں پشت میں ہیں۔ امام رضا علیہ السلام کے بعد آپ ہی مسند امامت پر متمکن ہوئے۔ آپ کے معاصر عباسی خلفاء میں مامون رشید اور المعتصم عباسی تھے۔ آپ کے تزوج میں حضرت بی بی سمانہؓ اور ام الفضلؓ تھے۔ آپ کی اولاد میں ایک حضرت امام علی علیہ السلام تھے جو امام نقی ؑ کے نام سے مشہور ہوئے اور آپ کے دوسرے صاحبزادے حضور سیدنا موسیٰ المبرقع ؑ تھے۔حضرت موسیٰ المبرقع ؑ کا مرقد نور ’’قم‘‘ ،ایران میں واقع ہے جبکہ حضرت امام علی نقی علیہ السلام سامرہ، عراق میں ہیں۔بعض محققین نے آپ کی اور اولاد کا ذکر کیا ہے۔آپ نے دین اسلام کی بہت خدمت کی اور تمام مومنین کو رشدو ہدایت سے سرفراز فرمایا۔ مختلف مذہبی عقائد کے پیشوائوں سے آپ کے مناظرے بہت مشہور ہیں۔ حج کے ارکان اور مناسک کے سلسلے میں بھی آپ کی ہدایات اور مباحث مشہور ہیں۔ آپ کے اعلیٰ تقویٰ کی وجہہ سے آپ کو امام تقی ؑ اور فیاضی اور سخاوت کی وجہہ سے آپ کو امام جواد ؑ سے یاد کیا جاتا ہے۔آپ کے پاس جو کچھ ہوتا اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کر دیتے۔ آپ کے کاشانہ اقدس کے باہر مسکین، فقراء اور لوگوں کا جمع غفیر ہوتا۔ حالت یہاں تک آگئی تھی کہ لوگ آپ کو گھر سے نکلتے ہی گھیر لیتے۔ آپ کا یہ معمول بچپن سے رہا۔آپ کے والد ماجد مولا رضا علیہ السلام کے خدمت گذاروں نے جب آپ کو دوسرے دروازے سے گھر کے باہر جانے کے لئے کہا تو امام علی ابن موسیٰ رضا علیہ السلام نے آپ کو خراسان سے خط لکھا اور حکم دیا کہ آپ سامنے کے دروازے سے ہی باہر نکلا کیجئے اور جو بھی درہم و دینار گھر میں ہو، اسے لوگوں میں تقسیم کر دیجئے۔ ایک روایت کے مطابق محرم ۲۲۰ھ میں عباسی خلیفہ معتصم کے بلانے پر آپ بغداد تشریف لائے اور اسی سال آپ کی شہادت۳۰؍ ذیقعدہ یا ذی الحجہ میں ہوئی۔معتصم عباسی کے اوپر آپ کے قتل کا الزام ہے۔ آپ کے جسد اطہر کو آپ کے جد حضور امام موسیٰ الکاظم علیہ السلام کے پہلو میں دفن کیا گیا۔آپؑ کا اور آپؑ کے جد گرامی ؑ کا روضہ’’ کاظمین ‘‘سے مشہور ہے۔اجلاس کے اختتام سے قبل بارگاہ رسالت پناہی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں سلام حضرت تاج العرفاءؒ پیش کیا گیا۔ ذکر جہری اور دعاے سلامتی پر آئی ہرک کا’’۱۵۹۲‘‘ واں تاریخ اسلام اجلاس تکمیل پذیر ہوا۔ جناب محمد مظہر خسرو حمیدی نے آخر میں شکریہ ادا کیا۔