حضرت سیدہ بی بی خدیجہ علیھا السلام کو ’’طاہرہ‘‘ اور ’’سیدئہ قریش‘‘ کہا جاتا تھا۔ حضرت قصیٔ ؑپر پہنچ کر آپ کا نسب حضور انور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ملتاہے

اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا ( آئی ہرک) کا ’’۱۵۹۱‘‘ واں تاریخ اسلام اجلاس۔پروفیسرسید محمدحسیب الدین حمیدی کا لکچر

حضرت سیدہ بی بی خدیجہ ؑ کا سلسلہ نسب حضرت قصیٔ پر پہنچ کر حضور انور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے شجرئہ نسب سے مل جاتا ہے۔ اپنے زمانہ میں حضرت سیدہ بی بی خدیجہؑ نسب کے لحاظ سے قریش میں سب سے زیادہ اعلیٰ اوسط، مرتبہ کے لحاظ سے سب سے اونچی، دولت کے لحاظ سے سب سے زیادہ امیر اور حسن و جمال کے لحاظ سے سب سے بلند تھیں۔ اپنی پاکدامنی اور پاکبازی کی وجہ سے قریش میں ان کو ’’طاہرہ‘‘ کہا جاتا تھا۔ ان کو ’’سیدئہ قریش‘‘ یعنی قریش کی سردار کہا جاتا تھا کیونکہ نسب کے معاملہ میں ’’اوسط‘‘ ہونا بہت زیادہ تعریف اور فضیلت کی بات سمجھی جاتی ہے۔ حضرت سیدہ بی بی خدیجہ ؑ تجارتی کامیابی کے ساتھ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے عظیم اخلاق اور غیر معمولی حسن کردار سے اتنا متاثر ہوئیں کہ خود اپنی جانب سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت اقدس میں پیغام عقد بھیجا جسے قبول فرمالیا گیا۔حضرت ابو طالبؑ نے بیس اونٹ یا بہ روایت دیگر بارہ اوقیہ اور ایک نش (پانچ سو درہم) مہر کے عوض حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا نکاح حضرت سیدہ بی بی خدیجہؑ سے کیا۔ اس وقت حضور پاک صلی اللہ علیہ و آلہ  وسلم کی عمر شریف ۲۵ سال تھی اور حضرت سیدہ بی بی خدیجہ ؑ عمر میں حضور ؐ سے زیادہ تھیں۔ان حقائق کا اظہار پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی جانشین شہزادئہ امام علی موسیٰ رضاؑڈاکٹر سید محمد حمید الدین شرفی  ؒ نے آج صبح ۱۰ بجے ’’ایوان تاج العرفاء حمیدآباد‘‘ واقع شرفی چمن ،سبزی منڈی قدیم اور ۱۲ بجے دن جامع مسجد محبوب شاہی مالاکنٹہ روڈ روبرو معظم جاہی مارکٹ میںاسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا (آئی ہرک) کے زیر اہتمام منعقدہ ’۱۵۹۱‘ویں تاریخ اسلام اجلاس میں سیرت سید کونین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر لکچرمیں کیا۔ صاحبزادہ سیدمحمدعلی موسیٰ رضاحمیدی نے حضرت سیدنا امام علی ابن موسیٰ الرضاعلیہ السلام کی زندگی کے منور پہلوئوں پر شرف تخاطب حاصل کیا۔پروفیسرسید محمد حسیب الدین حمیدی نے ایک آیت جلیلہ کا تفسیری ، ایک حدیث شریف کا تشریحی اور ایک فقہی مسئلہ کا توضیحی مطالعاتی مواد بھی پیش کیا۔انھوں نے انگلش لکچر سیریز کے ضمن میں حیات طیبہؐ ہی کے مقدس موضوع پراپنا ’۱۳۱۵‘ واں سلسلہ وار لکچر دیا اورسیرت آئمہ اہل بیت ؑ کے تسلسل میںحضرت سیدنا امام علی ابن موسیٰ الرضا علیہ السلام کے احوال شریف پر لکچر دئیے۔اپنے لکچر کے دوسرے حصہ میں پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی نے بتایا کہ حضور سیدناامام علی ابن موسیٰ کاظم الرضا المرتضیٰ علیہما السلام کی زندگی مکمل طور پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حیات طیبہ کی آئینہ دار تھی۔ امام رـضا ؑ پرتؤ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم و مولائے کائنات علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ تھے۔ حضرت امام علی ابن موسیٰ الرضا  ؑ آٹھویں امام ہیں۔ آپ کے والد حضرت امام موسیٰ کاظم ؑ اور والدہ حضرت سیدہ ام البنین طاہرہ نجمہؓ ہیں۔ سید الشہداء امام حسین ابن علی علیہ السلام کی نسل طیب و طاہر میں آپ پانچویں پشت میں ہے۔ آپ کی ولادت ۱۱؍ذیقعدہ ۱۴۸ھ میں مدینہ منورہ میں ہوئی۔ آپ کی کنیت ’’ابو الحسن‘‘ تھی اور آپ کا لقب ’’الرضا‘‘ تھا۔مامون عباسی جو آپ کے دور میں خلیفہ تھا اس نے آپ کو خراسان آنے کی دعوت دی اور اپنا ولی عہد بنایا۔ بعض مورخین کے نزدیک مامون نے آپ کو زبردستی خراسان بلایا۔اس نے امام رضا  ؑ اور مختلف مذاہب، فرقے اور مکتب فکر کے نمائندوں کے درمیان مناظرے رکھوائے۔ جب امام علی ؑابن موسیٰ کاظم الرضاؑ مدینہ منورہ میں تھے تو تمام علماء آپ سے ہر مسئلہ کے حل کے لئے رجوع ہوا کرتے۔ مسجد نبوی شریفؐ میں آپ تشریف فرما ہوتے اور وہیں پر آپ کے رشد و ہدایت کا سلسلہ رہتا۔ جب آپ مدینہ شریف سے خراسان کی طرف روانہ ہوئے اس وقت آپ کی عمر شریف ۵۲ برس تھی۔ ۲۰۰ھ میں آپ مدینہ منورہ سے خراسان کی طرف تشریف لے گئے۔ راستہ میں جب آپ کا گذر نیشاپور سے ہوا جہاں پر بے شمار محدثین آپ کی زیارت کے لئے جمع ہوئے تھے اور درخواست کی تھی کہ’’ اے فرزند رسولؐ! سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کوئی حدیث بیان فرمائے‘‘۔ آپ نے فرمایا ’’میرے والد امام موسیؑ ابن امام جعفر ؑنے سنا اپنے والد امام جعفرؓ ابن امام محمد ؑسے اور انھوں نے سنا اپنے والد امام محمد ؑ بن امام علی ؑ سے اور انھوں نے سنا اپنے والد امام علی ؑ ابن امام حسین ؑ سے جنھوں نے سنا اپنے والد امام حسین ابن امام علی  ؑ سے اور جنھوں نے سنا اپنے والد مولا علی ؑ ابن ابی طالب ؑ سے جنھوں نے سنا نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے جنھوں نے سنا جبرئیل ؑ سے جنھوں نے سنا اللہ جل جلالہ سبحانہ و تعالیٰ سے کہ ’لا الہ الا اللہ میرا قلعہ ہے۔ تو جوکوئی بھی میرے قلعہ میں داخل ہوا وہ میرے عذاب سے محفوظ ہوا‘‘‘۔ حضرت امام علی ابن موسی الرضا  ؑ کے مناظرے عیسائی، یہودی، زرتشت اور مختلف مذہبی خیالات کے علماء کے ساتھ ہوے اور ہر وقت آپ نے ہر ایک کو لاجواب کر دیا اور دین حق اسلام کے موقف کو اپنی حجت سے مضبوط و محفوظ کیا۔ مشہور صوفی حضرت معروف کرخیؒ آپ کی غلامی اور دربانی کیا کرتے تھے۔ اما م علی ابن موسیٰ الرضا علیہ السلام کی شہادت ایک روایت کے مطابق صفر ۲۰۳ھ میں ہوئی۔ آپ کو زہر دے کر شہید کیا گیا تھا۔ آپ کی مزار اقدس مشہد شریف میں موجود ہے جو کروڑوں لوگوں کی ہر سال زیارت کا مرکز ہے۔اجلاس کے اختتام سے قبل بارگاہ رسالت پناہی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں سلام حضرت تاج العرفاءؒ پیش کیا گیا۔ ذکر جہری اور دعاے سلامتی پر آئی ہرک کا’’۱۵۹۱‘‘ واں تاریخ اسلام اجلاس تکمیل پذیر ہوا ۔جناب محمد مظہر خسرو  حمیدی نے آخر میں شکریہ ادا کیا۔