حضرت سیدہ بی بی خدیجہؑ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو شراکت کی اساس پر مال تجارت کے ساتھ شام جانے کی پیش کش کی

اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا ( آئی ہرک) کا ’’۱۵۸۹‘‘ واں تاریخ اسلام اجلاس۔پروفیسرسید محمدحسیب الدین حمیدی کا لکچر

حیدرآباد ۔۴؍اگسٹ( پریس نوٹ)حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنے چچا حضرت ابو طالبؑ کے لئے بے حد دردمند تھے۔ ان کی معاشی مدد کے لئے آپ نے تجارت کو فروغ دینا چاہا۔ حضرت سیدہ بی بی خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ عنہا جو شرافت اور تمول میں ممتاز تھیں، اکثر اپنے مال تجارت کو بیرونی علاقوں میں بھیجا کرتی تھیں۔ چونکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم صادق و امین سے پہچانے جاتے تھے اور آپ کی خداداد تجارتی صلاحیتوں کا عام شہرہ تھا، حضرت سیدہ بی بی خدیجہؓ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو شراکت کی اساس پر مال تجارت کے ساتھ شام جانے کی پیش کش کی جسے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے منظور فرمالیا۔ ا س سفر میں حضرت سیدہ بی بی خدیجہؓ نے اپنے غلام میسرہ کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ہمراہ کیا۔ جب قافلہ سرحد شام میں داخل ہوا تو ایک روز حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ایک درخت کے سایہ میں جو ایک راہب کے صومعہ کے قریب تھا، جلوہ افروز ہوئے۔ راہب جس کا نام نسطور تھا، دوڑ کر آیا اور میسرہ سے پوچھا کہ یہ کون شخص ہے جو اس درخت کے نیچے تشریف رکھتے ہیں ؟ میسرہ نے کہا کہ یہ قبیلہ قریش کے ایک معزز شخص ہیں اور اہل حرم سے ہیں۔ راہب نے کہا کہ اس درخت کے نیچے پیغمبر کے سوا اور کوئی نہیں بیٹھا۔راہب نے یہ بھی دیکھا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر ایک بدلی سایہ کئے ہوئے ہے ۔ وہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس پہنچا اور حضورؐ کے قدم مبارک کو بوسہ دے کر کہنے لگا کہ ’’میں آپ پر ایمان لایا اور میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ ہی وہی ہیں جن کا اللہ تعالیٰ نے تورات میں ذکر فرمایا ہے۔ کاش میں وہ زمانہ پا سکتا جب آپ کو ظہور کا حکم ملے گا‘‘۔ راہب نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے اجازت لے کر مہر نبوت کی زیارت کا شرف پایا اور مہر نبوت چومتے ہوئے کہا کہ ’’میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ تعالیٰ کے پیغمبر اُمّی ہیں جن کے متعلق حضرت عیسیٰؑ بن مریم نے خوش خبری دی تھی اورکہا تھا کہ میرے بعد اس درخت کے نیچے کوئی نہیں بیٹھے گا سوائے اس پیغمبر کے جو اُمّی، ہاشمی، عربی اور مکی ہوگا۔(قیامت میں) حوض کوثر والا، شفاعت والا اور لوایٔ حمد(کا علمبردار) ہوگا‘‘۔ان حقائق کا اظہار پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی جانشین شہزادئہ امام علی موسیٰ رضاؑڈاکٹر سید محمد حمید الدین شرفی  ؒ نے آج صبح ۱۰ بجے ’’ایوان تاج العرفاء حمیدآباد‘‘ واقع شرفی چمن ،سبزی منڈی قدیم اور ۱۲ بجے دن جامع مسجد محبوب شاہی مالاکنٹہ روڈ روبرو معظم جاہی مارکٹ میںاسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا (آئی ہرک) کے زیر اہتمام منعقدہ ’۱۵۸۹‘ویں تاریخ اسلام اجلاس میں سیرت سید کونین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر لکچرمیں کیا۔ صاحبزادہ سیدمحمدعلی موسیٰ رضاحمیدی نے امام زین العابدین علیہ السلام کی زندگی کے منور پہلوئوں پر شرف تخاطب حاصل کیا۔پروفیسرسید محمد حسیب الدین حمیدی نے ایک آیت جلیلہ کا تفسیری ، ایک حدیث شریف کا تشریحی اور ایک فقہی مسئلہ کا توضیحی مطالعاتی مواد بھی پیش کیا۔انھوں نے انگلش لکچر سیریز کے ضمن میں حیات طیبہؐ ہی کے مقدس موضوع پراپنا ’۱۳۱۳‘ واں سلسلہ وار لکچر دیا اورسیرت آئمہ اہل بیت ؑ کے تسلسل میںحضرت سیدنا امام ابوعبداللہ جعفرالصادق علیہ السلام کے احوال شریف پر لکچر دئیے۔اپنے لکچر کے دوسرے حصہ میں پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی نے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عترت میں امام عالی مقام امام حسین علیہ السلام کی ذریت میں حضور امام جعفر الصادقؑ کی شناخت صدق، علم ، حکمت اور تقویٰ سے تابناک ہے۔ آئمہ اہلبیتؑ میں آپ چھٹے امام ہیں۔ آپ کی ولادت ۱۷؍ربیع الاول ۸۳ھ میں مدینہ منورہ میں ہوئی۔ آپ کے والد حضرت امام محمد باقر اؑبن امام علی زین العابدین ؑ تھے۔ والدہ ماجدہ حضرت ام فرویٰ ؓ  تھیں جو حضرت ابو بکرؓ کے نبیرہ حضرت القاسم ابن محمد ابن ابی بکرؓکی صاحبزادی تھیں۔حضرت امام جعفر صادقؓ نے دین کے بے شمار مسائل کو حل کیا۔ حضرت امام ابو حنیفہؒ اور حضرت امام مالکؒ آپ سے فیض حاصل کرتے تھے۔ حضرت ابو حنیفہؒ سے جب ان کی عمر کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے کہا کہ ’میں ’’دو برس کا ہوں‘‘ چونکہ دو برس میں نے امام جعفرصادقؑ کی صحبت اور خدمت میں گذارے ہیں‘۔ حضرت اما م مالکؒ نے فرمایا میں نے امام جعفر ؑ کوصرف ۳ حالتوں میں دیکھا ہے۔ یا تو نماز میں یا روزہ میںیا پھر تلاوت قرآن پاک میں۔ چونکہ امام جعفر صادق  ؑ کا دور اموی اور عباسی حکمرانوں میں جھگڑوں کا دور تھا اور اسی میںوہ الجھے ہوئے تھے۔ آپ کو دین کی بہت خدمت کرنے کا موقع ملا۔ آپ نے مدارس قائم کئے اور درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا۔ بلاشبہ امام جعفر صادق  ؑ تمام اسلامی علوم و فقہ کے سر چشمہ ہیں۔ فقہ جعفری آپ ہی سے منسوب ہے۔ چار ہزار سے زائدآپ کے شاگرد ہوئے۔ آپ نے اپنے چچا حضرت زیدؓ ابن امام زین العابدینؑ کی امویوں کے ساتھ جنگ میں حصہ نہیں لیا۔آپ ہی نے امت کو مولائے کائنات امیر المومنین حضرت سیدنا علی ابن ابی طالبؑ کی مزار اقدس بتلائی۔ آپ اکثر نجف، کوفہ، کربلا اور بغداد کا سفر کرتے اور مولائے کائنات اور امام عالی مقام امام حسین علیھم السلام کے روضوں کی زیارت فرماتے۔ آپ کے القابات میں الصادق، الطاہر اور الفاضل مشہور ہیں۔آپ کے مناظرے بے دینوں، کافروں اور بہت سارے بھٹکے ہوئے عالموں سے بہت مشہور ہوئے۔آپ نے ہر مناظرے میں انھیں لاجواب کر دیا۔ آ پ کی شہادت ایک روایت کے مطابق ۲۵؍شوال ۱۴۸ھ میں مدینہ منورہ میں ہوئی۔ المنصور الدوانیقی عباسی خلیفہ نے آپ کو زہر دے کر قتل کروایا۔ آپ اپنے والد ماجدحضرت امام محمد الباقرؑ کے پہلو میں جنت البقیع میں آرام فرما ہیں۔اجلاس کے اختتام سے قبل بارگاہ رسالت پناہی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں سلام حضرت تاج العرفاءؒ پیش کیا گیا۔ ذکر جہری اور دعاے سلامتی پر آئی ہرک کا’’۱۵۸۹‘‘ واں تاریخ اسلام اجلاس تکمیل پذیر ہوا ۔الحاج محمد یوسف حمیدی نے آخر میں شکریہ ادا کیا۔