حضور سیدنا امام حسن عسکری ؑ ائمہ اہل بیت کے گیارھویں امام
اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا ( آئی ہرک) کا ’’۱۵۹۴‘‘ واں تاریخ اسلام اجلاس۔پروفیسرسید محمدحسیب الدین حمیدی کا لکچر
حیدرآباد ۔۸؍سپٹمبر( پریس نوٹ) حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عمر شریف ۳۵ سال تھی جب قریش نے خانہ کعبہ کی نئے سرے سے تعمیر کا ارادہ کیا ۔ قریش نے خیال کیا کہ خانہ کعبہ کی دیواریں اور بلند کر کے اس کو مسقف کر دیں۔ اس کا سبب یہ ہوا کہ کچھ لوگ خانہ کعبہ کاخزانہ جو اس کے اندر ایک تہہ خانہ میں رہتا تھا، چرا کر لے گئے تھے اور اس کے چند چیزیں ایک شخص کے پاس پائی گئی تھی۔تعمیر کا دوسرا سبب یہ تھا کہ مکہ میں ایک زبردست سیلاب آیا۔ قریش نے سیلاب روکنے کے لئے ایک بند بنا رکھا تھا مگر پانی کا اتنا زور ہوا کہ سیلاب اس بند کو توڑتا ہوا اس پر سے گذر کر کعبہ میں داخل ہو گیا۔ پانی کے بہائو اور جمع ہو جانے کی وجہ سے کعبہ کی دیواروں میں شگاف پڑ گیا۔اسی دوران ایک رومی سوداگر کی کشتی جو ڈوب گئی تھی، ساحل جدہ سے برآمد ہوئی۔ اس کشتی کی لکڑیو ںکو قریش نے خانہ کعبہ کی چھت پر تعمیر کے واسطے رکھ چھوڑا تھا اور ایک قبطی شخص بھی مکہ میں رہتا تھا جو بڑھئی کے کام سے خوب واقف تھا اور اس نے خانہ کعبہ کی چھت کی تیاری کے لئے تیار ہو گیا تھا۔کعبہ کی دیواروں کو منہدم کرنے سے قریش خائف تھے اور کسی میںیہ جراء ت نہ ہوتی تھی کہ اس کو گرانا شروع کرے۔ اسی دوران ایک عجیب واقعہ ہوا۔ خانہ کعبہ کے اس تہہ خانہ میں جو نذر و نیازکے لے بنایا گیا تھا، ایک سانپ رہتا تھا۔ اکثر و سانپ تہہ خانہ سے نکل کر کعبہ کی دیواروں پر پھرا کرتا تھا۔ ایک روز یہ سانپ نکلا اور حسب دستور دیواروں پر پھر نے لگا۔اللہ تعالی نے ایک پرندے کو بھیجا اور وہ اس سانپ کو پکڑ کراڑ گیا۔ قریش یہ واقعہ دیکھ کر کہنے لگے کہ ہم کومعلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے اس ارادہ سے راضی ہے۔ان حقائق کا اظہار پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی جانشین شہزادئہ امام علی موسیٰ رضاؑڈاکٹر سید محمد حمید الدین شرفی ؒ نے آج صبح ۱۰ بجے ’’ایوان تاج العرفاء حمیدآباد‘‘ واقع شرفی چمن ،سبزی منڈی قدیم اور ۱۲ بجے دن جامع مسجد محبوب شاہی مالاکنٹہ روڈ روبرو معظم جاہی مارکٹ میںاسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا (آئی ہرک) کے زیر اہتمام منعقدہ ’۱۵۹۴‘ویں تاریخ اسلام اجلاس میںسیرت سید کونین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر لکچرمیں کیا۔پر وفیسرسید محمد حسیب الدین حمیدی نے ایک آیت جلیلہ کا تفسیری ، ایک حدیث شریف کا تشریحی اور ایک فقہی مسئلہ کا توضیحی مطالعاتی مواد بھی پیش کیا۔صاحبزادہ سید محمد علی موسیٰ رضا حمیدی نے سیرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر شرف تخاطب حاصل کیا۔پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی نے انگلش لکچر سیریز کے ضمن میں حیات طیبہؐ کے مقدس موضوع پراپنا ’۱۳۱۸‘ واں سلسلہ وار لکچر بھی دیا اورسیرت آئمہ اہل بیت ؑ کے تسلسل میںحضرت سیدنا امام حسن عسکری علیہ السلام کے احوال شریف پر لکچر دئیے۔اپنے لکچر کے دوسرے حصہ میں پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی نے بتایا کہ حضور امام حسن عسکری علیہ السلام ائمہ اہل بیت کے گیارہویں امام ہیں۔ آپ ۱۰؍ربیع الثانی ۲۳۲ھ میں مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد ماجد حضرت امام علی نقی علیہ السلام اور والدہ ماجدہ حضرت حُدیثؓ تھیں۔ بعض اصحاب تحقیق نے آپ کا نام ثوسن اور دوسرے نام بھی بتلائے ہیں۔ حضرت امام حسن ؑابن علی ؑ کو امام عسکری کہنے کی وجہہ یہ ہے کہ آپ کو شہر سامرا جو فوجی چھاونی تھا اس میں ہی پوری زندگی گذار نے پر مجبور کیا گیا۔ آپ کے القابات میں ابن الرضا، ہادی، زکی ،رفیق وغیرہ بھی مشہور ہیں۔ اما م حسن عسکریؑ تفسیر کلام پاک، فقہ اور مختلف دینی مسائل کی خدمت کے سلسلہ میں مشہور ہیں۔آپ امام حسین علیہ السلام کی عترت میں آٹھویں پشت میں تشریف لائے۔ امام حسن عسکریؑ اپنی خوبصورتی کے وجہہ سے مشہور تھے۔آپ کی کنیت ابو محمد تھی بعضوںنے ابو الحسن اور ابو القائم بھی آپ کی کنیت بتلائی ہے۔مشہور روایت ہے کہ امام حسن عسکری ؑ ۸؍ربیع الاول۲۶۰ھ میں ۲۸ برس کی عمر میں معتمد عباسی کے ہاتھوں شہید ہوئے۔امام حسن عسکریؑ کا مرقد اپنے والد ؑ کے پہلو میں سامرا میں موجود ہیں۔ آپ کی زوجہ محترمہ کا نام بعضوں نے نرجس بتلایا ہے۔ ایک روایت کے مطابق آپ کے فرزند محمد ؑ ۱۵؍شعبان ۲۵۴ یا ۲۵۵ھ کو تولد ہوئے اور جو امام محمد ؑ کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ مگر بعض محققین نے آپ کے ۳ فرزند اور ۳ دختر کا ذکر کیا ہے۔ اور بعض مورخین نے آ پ کی اولاد کا ذکر ہی نہیں کیا۔ آپ کے معاصر عباسی خلفاء میںمعتز عباسی، مہتدی اور معتمد کے نام ملتے ہیں۔اجلاس کے اختتام سے قبل بارگاہ رسالت پناہی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں سلام حضرت تاج العرفاءؒ پیش کیا گیا۔ ذکر جہری اور دعاے سلامتی پر آئی ہرک کا’’۱۵۹۴‘‘ واں تاریخ اسلام اجلاس تکمیل پذیر ہوا۔الحاج محمد یوسف حمیدی نے آخر میں شکریہ ادا کیا۔