شرف و عزت، فضیلت و مرتبہ اور عقل و دانائی کے لحاظ سے دوسرا ہر شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے کمتر۔ حضرت ابو طالبؓ کا خطبہ نکاح

اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا ( آئی ہرک) کا ’’۱۵۹۳‘‘ واں تاریخ اسلام اجلاس۔پروفیسرسید محمدحسیب الدین حمیدی کا لکچر

حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور حضرت سیدہ بی بی خدیجہؑ کے نکاح کے موقع پر حضرت ابو طالبؑ کاخطبہ کتب سیر میں محفوظ ہے۔حضرت ابو طالبؑ نے اپنے خطبہ میں کہا کہ ’’ تمام تعریفیں اس خدائے بزرگ و برتر کے لئے ہی سزاوار ہیں جس نے ہمیں حضرت ابراہیم ؑکی اولاد، حضرت اسماعیل ؑ کی کھیتی، حضرت معد ؑ کا خزانہ، حضرت مضرؑ کی اولاد کا اصل بنایا اور جس نے ہمیں اپنے مقدس گھر (کعبۃ اللہ) کا خادم اور پاسبان بنایااور جس نے اپنے اس گھر کو ہمارے لئے حج کا مرکز بنایا، اس میں لوگوں کا حاکم بنایا۔پھر یہ کہ میرے بھتیجے (حضرت)محمد(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) ابن عبد اللہ ؑ ایسے ہیں کہ شرف و عزت، فضیلت و مرتبہ اور عقل و دانائی کے لحاظ سے دوسرا ہر شخص ان سے کمتر ہے۔‘‘ مزید کہا کہ ’’ان کا مقام یہ ہے کہ بہت جلد آنے والے زمانے میں ایک عظیم خوش خبری اور زبردست خوش بختی ان کی راہ دیکھ رہی ہے۔ انھوں نے رضا و رغبت اور خوشی کے ساتھ آپ کی پاکباز خاتون (حضرت سیدہ بی بی) خدیجہؑ سے رشتہ دیا ہے‘‘۔ورقہ بن نوفل نے جواباً خطبہ میں کہا کہ ’’تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کو ہی سزاوار ہیں جس نے ہمیں ایسا بنایا جیسا کہ آپ نے بیان کیا اور ہمیں وہ فضیلتیں دیں جو آپ نے گنائیں، چنانچہ ہم عرب کے سردار اور رہنما ہیں اور آپ ان فضیلتوں کے اہل اور لائق ہیں۔ عرب نہ آپ کی بڑائی سے انکار کر سکتے ہیں اور نہ آپ کی عزت و عظمت سے انکار کر سکتے ہیں‘‘۔ حضرت سیدہ بی بی خدیجہؑ کے چچا عمرو بن اسد نے اعلان نکاح کیا کہ ’’اے گروہ قریش! مجھ پر گواہ رہو کہ میں نے (حضرت سیدہ بی بی) خدیجہ بنت خویلدؑ کا نکاح (حضرت) محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) ابن عبداللہ ؑ سے کر دیا ‘‘۔ام المومنین حضرت سیدہ بی بی خدیجہ ؑ کی زندگی میں حضور انور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دوسرا نکاح نہیں کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تمام اولادیں بجز حضرت سیدنا ابراہیم ؑ کے، حضرت سیدہ بی بی خدیجہ ؑ کے بطن اطہر سے ہوئیں۔ ان حقائق کا اظہار پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی جانشین شہزادئہ امام علی موسیٰ رضاؑڈاکٹر سید محمد حمید الدین شرفی  ؒ نے آج صبح ۱۰ بجے ’’ایوان تاج العرفاء حمیدآباد‘‘ واقع شرفی چمن ،سبزی منڈی قدیم اور ۱۲ بجے دن جامع مسجد محبوب شاہی مالاکنٹہ روڈ روبرو معظم جاہی مارکٹ میںاسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا (آئی ہرک) کے زیر اہتمام منعقدہ ’۱۵۹۳‘ویں تاریخ اسلام اجلاس میںسیرت سید کونین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر لکچرمیں کیا۔پر وفیسرسید محمد حسیب الدین حمیدی نے ایک آیت جلیلہ کا تفسیری ، ایک حدیث شریف کا تشریحی اور ایک فقہی مسئلہ کا توضیحی مطالعاتی مواد بھی پیش کیا۔انھوں نے انگلش لکچر سیریز کے ضمن میں حیات طیبہؐ کے مقدس موضوع پراپنا ’۱۳۱۷‘ واں سلسلہ وار لکچر بھی دیا اورسیرت آئمہ اہل بیت ؑ کے تسلسل میںحضرت سیدنا امام علی نقی علیہ السلام کے احوال شریف پر لکچر دئیے۔اپنے لکچر کے دوسرے حصہ میں پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی نے بتایا کہ حضور امام علی ابن محمد النقی علیہ السلام آئمہ اہل بیت میں ۱۰ویں امام ہیں۔ ۱۵؍ذوالحجہ ۲۱۲ھ میں مدینہ منورہ میں آپ کی ولادت ہوئی۔ حضرت امام محمد تقی علیہ السلام جو نویں امام ہیں، آپ کے والد تھے اور حضرت سمانہؓ  آپ کی والدہ تھیں۔ آپ کو چار صاحبزادے تھے اور ایک صاحبزادی تھیں۔ آپ کے صاحبزادے حضور حضرت حسن علیہ السلام جنھیں امام حسن عسکریؑ کہا جاتا ہے، آپ کے بعد مسند امامت پر فائز ہوئے۔ آپ مختلف القابات سے مشہور ہیں مثلاً امام ہادی، امام نقی، نجیب، امین۔ آپ کی کنیت ابو الحسن تھی۔ آپ کو ابو الحسن ثالث سے یاد کیا جاتا ہے۔ آپ بہت سارے عباسی خلفاء کے معاصر رہے جن میں مامون، معتصم، واثق، متوکل، منتصر، مستعین اور معتز تھے۔ متوکل عباسی نے ۲۳۳ھ میں آپ کو مدینہ منورہ سے بغداد بلایا اور پھر وہاں سے سامرا منتقل کیا۔ آپ پھر اس کے بعد سے شہادت تک وہیں پر مقیم رہے۔ تقریاً ۲۰ سال تک آپ سامرا میں رہے اور لوگوں کو رشد و ہدایت سے سرفراز فرمایا۔ ہر فرد جو آپ سے ملتا وہ انتہائی عاجزی اور تکریم سے ملتا۔ آپ کا تقویٰ، پرہیزگاری اور آپ کے علم سے سب متاثر اور فیض پا رہے تھے۔ متوکل عباسی نے بہت کوشش کی کہ وہ آپ کی تحقیر کرے مگر جب کبھی کوئی حرکت کرتا، خود نادم ہوتا اور امام کی تکریم کرنے پر مجبو رہو جاتا۔ آپ کے دور میں جب مختلف باطل عقائد پروان چڑھ رہے تھے تو آپ نے شدت کے ساتھ ان عقائد کی مخالفت کی۔ آپ نے ایک رسالہ لکھا جو قرآن مجید کی بنیادی حیثیت اور قرآن پاک ہی کو روایات کی کسوٹی اور حق اور باطل کی تشخیص کا معیار قرار دیا۔ اس رسالہ کو ابن شعبہ حرانی نے نقل کیا ہے۔ آپ اکثر لوگوں کو لاحاصل بحث میںپڑنے سے روکتے۔امام علی نقی علیہ السلام کے چاہنے والوں کی ایک بڑی تعداد ’’قم ‘‘ ایران میں تھی۔ امام علی نقی  ؑ کے بھائی حضرت حضور موسیٰ المبرقع علیہ السلام ایران کے شہر قم کو منتقل ہو گئے تھے چونکہ کوفہ کے بعد قم کو اہل بیت کے چاہنے والوں کا شہر مانا جاتا تھا۔ یہاں پر بہت سارے اہل بیت کے ماننے والے منتقل ہو گئے تھے۔ قم میں بہ نسبت کوفہ کے ،بہت اعتدال پسندی تھی اور غلو آمیز اعتقادات رائج نہیں تھے۔ اور اسی بناپر آپ کے بھائی حضرت حضور موسیٰ المبرقع علیہ السلام قم منتقل ہو گئے تھے۔ امام علی نقی علیہ السلام کی شہادت ۳؍ رجب۲۵۴ھ میں ہوئی۔ایک روایت کے مطابق معتمد عباسی نے آپ کو زہر دے کر شہید کر دیا۔ پھر آپ کی تدفین اس گھر میں ہوئی جہاں پر آپ کو چند روز قید رکھا گیاتھا۔ امام علی نقی  ؑ کے چند مشہور قول اس طرح ہیں: ’’جس پر تمہارا تسلط نہیں اس پر غصہ ہونا عاجزی ہے اور جس پر تسلط ہے اس پر غصہ ہونا پستی ہے‘‘۔’’مصیبت صبر کرنے والے کے لئے اکہری اور بے صبری کرنے والے کے لئے دوہری ہے‘‘۔ ’’جس کا نفس پست ہوجائے اس کے شر سے اپنے کو محفوظ نہ سمجھو‘‘۔اجلاس کے اختتام سے قبل بارگاہ رسالت پناہی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں سلام حضرت تاج العرفاءؒ پیش کیا گیا۔ ذکر جہری اور دعاے سلامتی پر آئی ہرک کا’’۱۵۹۳‘‘ واں تاریخ اسلام اجلاس تکمیل پذیر ہوا۔جناب محمد مظہر خسرو حمیدی نے آخر میں شکریہ ادا کیا۔