بعثت شریف سے پہلے سرکار پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم غار حرا میں پورے ماہ رمضان میں مصروف عبادت ہوتے
اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا ( آئی ہرک) کا ’’۱۶۰۱‘‘ واں تاریخ اسلام اجلاس۔پروفیسرسید محمدحسیب الدین حمیدی کا لکچر
غار حرا جس پہاڑ کی چوٹی پر ہے اس کا نام جبل نور ہے۔ سرکار پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانۂ خلوت نشینی میں یہ غار مکہ مکرمہ سے ۳ میل کے فاصلے پر تھا۔ آج مکہ مکرمہ کی وسعت اتنی ہو گئی کہ یہ اس میں آگیا ہے۔ جبل نور پر سرکار پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قیام کی مدت کبھی ۳ رات، کبھی ۵ رات اور کبھی ۷ رات ہوتی۔مگر بہت سارے محققین فرماتے ہیں کہ حضور پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم رمضان کے پورے مہینے غار حرا میں مصروف عبادت ہوتے۔اور جو کوئی مسکین وہاں پر آتا حضور پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس کو کھانا کھلاتے۔ قریش میں سب سے پہلے آپ کے داد ا محترم حضرت عبد المطلبؑ غار حرا میں خلوت نشینی کی اور مصروف عبادت رہے۔ وہاں پر آپ رمضان کے مہینے میں مسکینوں کو کھانا کھلاتے۔ غار حرا میں سرکار پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی غذا بھنی روٹی، زیتون کا تیل، دھی اور گوشت ہوا کرتا۔ غار حرا ہی نے ایک دفعہ سرکار پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو آواز دی اور عرض کیا ’’میرے پاس تشریف لائیے، یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)‘‘۔ان حقائق کا اظہار پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی جانشین شہزادئہ امام علی موسیٰ رضاؑڈاکٹر سید محمد حمید الدین شرفی ؒ نے آج صبح ۱۰ بجے ’’ایوان تاج العرفاء حمیدآباد‘‘ واقع شرفی چمن ،سبزی منڈی قدیم اور ۱۲ بجے دن جامع مسجد محبوب شاہی مالاکنٹہ روڈ روبرو معظم جاہی مارکٹ میںاسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا (آئی ہرک) کے زیر اہتمام منعقدہ ’۱۶۰۱‘ویں تاریخ اسلام اجلاس میں سیرت سید کونین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر لکچرمیں کیا۔پروفیسرسید محمد حسیب الدین حمیدی نے ایک آیت جلیلہ کا تفسیری ، ایک حدیث شریف کا تشریحی اور ایک فقہی مسئلہ کا توضیحی مطالعاتی مواد بھی پیش کیا۔انھوں نے انگلش لکچر سیریز کے ضمن میں حیات طیبہؐ ہی کے مقدس موضوع پراپنا ’۱۳۲۵‘ واں سلسلہ وار لکچر دیا اور ایک مہاجر ایک انصاری سلسلہ کے تحت صحابی رسول مقبولؐ حضرت نقیع بن حارثؓ کے احوال شریف پر لکچر دئیے۔اپنے لکچر کے دوسرے حصہ میں پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی نے بتایا کہ اللہ تعالیٰ کی محبت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سچی چاہت کا موثر جذبہ صحابہ کرام کی مبارک زندگیوں کا عنوان جلی تھا۔ دعوت حق پر غور و تدبر اور جب انکشاف حق ہو جاے تو ایک لحظہ تامل کے بغیر ایمان سے مشرف ہو جانا ان کا معمول رہا۔ حضرت نقیع بن حارثؓ نے بھی جب اپنی آنکھوں سے حق کے اجالے دیکھ لئے اور دل نے اسلام کی حقانیت کا اعتراف کر لیا تو پھر قبول ایمان میں پل بھر دیر نہ کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اطہر و اقدس سے وابستگی اختیار کر لی ۔ انھوں نے پیش آئندہ حالات کی رمق برابر پرواہ نہ کی۔ انھوں نے محاصرہ طائف کے زمانہ میں اپنے آقا کو چھوڑ کر آقاے دو جہاں حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دامن رحمت سے خود کو وابستہ کر لیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انہیں پروانہ آزادی مرحمت فرمایا اور انھیں ’ابو بکرہ‘‘ کی کنیت سے سرفرا فرمایا۔ حضرت نقیع بن حارثؓ کا تعلق عوف بن ثقیف کے خاندان سے تھا۔ ان کی والدہ کا نام سمیہ تھا۔ جب وہ مشرف بہ ایمان ہوئے تو پھر ان کے حالات یکسر بدل گئے۔ پہلے وہ غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے اسلام نے انہیں آزادی و حریت کی دولت سے بہرہ مند کیا۔ انھوں نے سخت مجاہدات کئے۔ عبادت و ریاضت ان کا محبوب ترین مشغلہ تھا۔ وہ زہد و تقویٰ میں یگانہ عصر تھے۔ حضرت نقیع بن حارثؓ کا شمار فاضل اور صالح صحابہ میں نمایاں تھا۔ تادم زیست جادہ حق پر گامزن اور عبادت الٰہی میں منہمک رہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی محبت اور اتباع کامل آپ کی پہچان تھی۔ ساری زندگی اطاعت حق تعالیٰ میں گزار دی۔ حضرت ابو بکرہؓ اپنے خاندان کے ساتھ بعد میں بصرہ منتقل ہو گئے تھے ان کے اخلاف بصرہ کے شرفاء اور اہل علم میں شمار ہوتے تھے۔ حضرت ابو بکرہؓ علم و فضل میں بھی ممتاز تھے ۔ آپ کی مرویات بھی ہیں۔ ۵۱ یا ۵۲ ہجری میں بصرہ میں وفات ہوئی۔ حضرت ابو برزہ اسلمی ؓنے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی۔اجلاس کے اختتام سے قبل بارگاہ رسالت پناہی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں سلام حضرت تاج العرفاءؒ پیش کیا گیا۔ ذکر ہری اور دعاے سلامتی پر آئی ہرک کا’’۱۶۰۱‘‘ واں تاریخ اسلام اجلاس تکمیل پذیر ہوا۔ الحاج محمد یوسف حمیدی نے آخر میں شکریہ ادا کیا۔