حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم غار حرا میں خود اپنے مقرر کردہ طریقہ پر عبادت کیا کرتے
اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا ( آئی ہرک) کا ’’۱۶۰۰‘‘ واں تاریخ اسلام اجلاس۔پروفیسرسید محمدحسیب الدین حمیدی کا لکچر
حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم انسانی گمراہی، اپنی قوم کی جاہلانہ بت پرستی، مشرکانہ مشغولیات، ظالمانہ رویوں، افکار و اعمال کی ظلمانی کیفیتوں، اخلاقی برائیوں، معاشرہ کے تباہ کن حالات اور حق و صداقت سے دوری پر بے حد رنجیدہ اور متفکر رہا کرتے۔ ساری قوم اور پوری انسانیت کو ان ظلمات اور فکر و عمل کی تباہی، شرک و گمراہی سے نجات دلانے کے لئے ہمیشہ غور و تدبر میں منہمک رہا کرتے۔ حضور انور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آبادی سے دور غار حراء میں کئی کئی روز تک ریاضت تنہائی اور انسانی ہدایت کے لئے غور و فکر میں محو و مصروف رہا کرتے تھے۔ غار حرا میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حقائق کی جستجو اور اسرار و رموزات کائنات پر تدبر فرمایا۔ زیادہ وقت عبادت الٰہی میں گزرتا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے طریقہ عبادت کے متعلق مختلف نظریات ہیں۔ ایک روایت کے مطابق حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حضرت نوحؑ، حضرت ابراہیم ؑ، حضرت موسیٰ ؑ یا حضرت عیسیٰ ؑ کے طریقہ ہائے عبادت کے موافق مشغول عبادت رہا کرتے تھے۔ اس موضوع پر بہت سی دلیلیں دی گئی ہیں ۔ تاہم صحیح یہ ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم خود اپنے مقرر کردہ طریقہ پر عبادت کیا کرتے۔ ان حقائق کا اظہار پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی جانشین شہزادئہ امام علی موسیٰ رضاؑڈاکٹر سید محمد حمید الدین شرفی ؒ نے آج صبح ۱۰ بجے ’’ایوان تاج العرفاء حمیدآباد‘‘ واقع شرفی چمن ،سبزی منڈی قدیم اور ۱۲ بجے دن جامع مسجد محبوب شاہی مالاکنٹہ روڈ روبرو معظم جاہی مارکٹ میںاسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا (آئی ہرک) کے زیر اہتمام منعقدہ ’۱۶۰۰‘ویں تاریخ اسلام اجلاس میں سیرت سید کونین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر لکچرمیں کیا۔پروفیسرسید محمد حسیب الدین حمیدی نے ایک آیت جلیلہ کا تفسیری ، ایک حدیث شریف کا تشریحی اور ایک فقہی مسئلہ کا توضیحی مطالعاتی مواد بھی پیش کیا۔انھوں نے انگلش لکچر سیریز کے ضمن میں حیات طیبہؐ ہی کے مقدس موضوع پراپنا ’۱۳۲۴‘ واں سلسلہ وار لکچر دیا اور ایک مہاجر ایک انصاری سلسلہ کے تحت صحابی رسول مقبولؐ حضرت طلیب بن عمیرؓ کے احوال شریف پر لکچر دئیے۔اپنے لکچر کے دوسرے حصہ میں پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی نے بتایا کہتقدم و سبقت اسلام ایک عظیم اعزاز و شرف ہے۔ جن بزرگوں کو یہ سعادت ملی ان میں حضرت طلیب بن عمیرؓ بھی شامل ہے۔حضرت طلیب بن عمیرؓ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دار ارقم میں رونق افروزی کے زمانہ میں ایمان کی دولت پائی۔ حضرت طلیبؓ کا سلسلہ نسب چار واسطوں سے عبد بن حضرت قصیٔ ؑسے جا ملتا ہے اسی وجہہ سے وہ قریشی عبدی کہلاے۔ ان کی والدہ ماجدہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پھوپھی اور حضرت عبد المطلب ؓ کی صاحبزادی تھیں۔ حضرت طلیبؓ اس لحاظ سے قرابت داروں میں سے تھے ان کی کنیت ابو عدی ہے۔ حضرت طلیبؓ نے اسلام قبول کر کے سب سے پہلے اس کی اطلاع اپنی والدہ ماجدہ کو دی انھوں نے یہ جان کر بڑی مسرت کا اظہار کیا اور اپنے فرزند طلیبؓ سے فرمایاکہ تم نے یہ بہت اچھا کیا سب سے زیادہ تم پر یہ بات واجب ہے کہ تم اپنے ماموںؑ کے فرزندؐ کی نصرت کرو اور ان کی حمایت میں مستعد رہو پھر ان کی والدہ ماجدہ نے فرمایا کہ واللہ! اگر ہم لوگ وہ کام کر سکتے جو مرد کر سکتے ہیں تو ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حمایت میں سب سے آگے رہتے۔ حضرت طلیبؓ اپنی والدہ کے ان مبارک خیالات و احساسات سے بے حد متاثر ہوے اور محبت و اتباع و خدمت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں تادم زیست مستعد و پابند رہے ۔ پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی نے بتایا کہ حبشہ ہجرت کرنے والو میں حضرت طلیبؓ بن عمیر بھی شامل تھے بعد ازاں انھیں ہجرت مدینہ منورہ کی سعادت بھی حاصل ہوئی۔ حضرت طلیبؓ عشق الٰہی کی دولت سے مالا مال تھے محبت رسولؐ ان کی کتاب حیات کا اہم باب تھا دین حق کی خدمت کے لئے وقف ہو چکے تھے۔ اللہ کی راہ میں جہاد کے ذوق نے انہیں غزوہ بدر میں ممتاز رکھا۔ حضرت طلیبؓ نہایت خداترس، نیک، متقی، پرہیزگار، رحمدل، نرم مزاج اور ایثار پسند تھے وہ مہاجرین اولین میں سے تھے ان کو حضور انور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے بے پناہ محبت تھی۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ان پر خاص توجہ فرمایا کرتے۔ حضرت طلیبؓ نے غزوہ اخبادین یں جام شہادت نوش کیا ایک قول یہ بھی ہے کہ وہ معرکہ یرموک میں شہید ہوئے ۔ ان کو اولاد نہ تھی۔اجلاس کے اختتام سے قبل بارگاہ رسالت پناہی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں سلام حضرت تاج العرفاءؒ پیش کیا گیا۔ ذکر جہری اور دعاے سلامتی پر آئی ہرک کا’’۱۶۰۰‘‘ واں تاریخ اسلام اجلاس تکمیل پذیر ہوا۔ الحاج محمد یوسف حمیدی نے آخر میں شکریہ ادا کیا۔