سورۃ المدثر کے نزول سے سرکار پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رسالت کے کام کا آغاز

اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا ( آئی ہرک) کا ’’۱۶۰۴‘‘ واں تاریخ اسلام اجلاس۔پروفیسرسید محمدحسیب الدین حمیدی کا لکچر

حیدرآباد ۔۱۷؍نومبر( پریس نوٹ)سرکار پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نبوت کا اعلان و اظہار سورۃ العلق کی ابتدائی آیات سے ہوا۔ پھر چند دن بعد سورۃ المدثر نازل ہوئی۔ پہلی وحی کے بعد سورۃ المدثر کے درمیان جو وقفہ ہے اس کی روایات ۳ سال سے ۳ دن تک کی ہیں۔ سورۃ المدثر کے نزول سے سرکار پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رسالت کا کام شروع ہوا۔ رب تعالیٰ نے حکم سرفراز فرمایا۔ یٰٓاَ یُّھَا الْمُدَّثِّرُ o قُمْ فَاَنْذِرْo وَرَبَّکَ فَکَبِّرْ (اے چادر لپیٹنے والے(محبوب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)! اٹھئے اور لوگوں کو ڈرائیے۔ اور اپنے رب کی بڑائی بیان فرمائیے) ۔ نزول وحی کے بعد سب سے پہلا حکم مولیٰ تعالیٰ نے نماز پڑھنے کا دیا۔ جبرئیل علیہ السلام ، سرکار پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ایک وادی میں لے آئے وہاں پر اپنے پر سے ایک پانی کے چشمہ کو جاری کیا پھر وضو کیا اور پھر سرکار پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے وضو کیا اور نماز ادا کی۔ یہ نماز دو رکعتوں پر تھی۔ پانچ وقت کی نماز سے پہلے (جو معراج میں فرض ہوئیں) دو وقت کی نماز تھی اس کا وقت طلوع اور غروب آفتاب سے پہلے تھا۔ حضرت بی بی سیدہ خدیجہ علیھا السلام اور مولاے کائنات علی المرتضیٰ علیہ السلام ، حضور پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی امامت میں نماز ادا کرتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر ایمان لانے والوں میں سر فہرست ام المومنین بی بی سیدہ خدیجہ علیھا السلام، آپ کے چچازاد بھائی جو آپ کے زیر کفالت تھے یعنی حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام جن کی عمر آٹھ سال تھی اور آپ کے آزاد کردہ غلام حضرت زیدؓ تھے۔ ان کے علاوہ آپ کے دوست عبد اللہ ابن بی قحافہ یعنی حضرت ابو بکرؓ تھے۔حضرت مولاے کائناتؑ کے ایک دوسرے بھائی حضرت جعفرؓ  بھی اپنے والد حضرت ابو طالبؓ کی ترغیب پر ایمان لائے۔ یہ بھی سابقین الی السلام میں سے تھے۔ان حقائق کا اظہار پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی جانشین شہزادئہ امام علی موسیٰ رضاؑڈاکٹر سید محمد حمید الدین شرفی  ؒ نے آج صبح ۱۰ بجے ’’ایوان تاج العرفاء حمیدآباد‘‘ واقع شرفی چمن ،سبزی منڈی قدیم اور ۱۲ بجے دن جامع مسجد محبوب شاہی مالاکنٹہ روڈ روبرو معظم جاہی مارکٹ میںاسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا (آئی ہرک) کے زیر اہتمام منعقدہ ’۱۶۰۴‘ویں تاریخ اسلام اجلاس میں سیرت سید کونین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر لکچرمیں کیا۔ پروفیسرسید محمد حسیب الدین حمیدی نے ایک آیت جلیلہ کا تفسیری ، ایک حدیث شریف کا تشریحی اور ایک فقہی مسئلہ کا توضیحی مطالعاتی مواد بھی پیش کیا۔انھوں نے انگلش لکچر سیریز کے ضمن میں حیات طیبہؐ ہی کے مقدس موضوع پراپنا ’۱۳۲۸‘ واں سلسلہ وار لکچر دیا اور ایک مہاجر ایک انصاری سلسلہ کے تحت صحابی رسول مقبولؐ حضرت زید بن حارثہ ؓ کے احوال شریف پر لکچر دئیے۔اپنے لکچر کے دوسرے حصہ میں پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی نے بتایا کہ حضرت زید بن حارثہ  ؓسبقت اسلام میں انفرادیت رکھتے تھے کہ وہ سابقون الاولون میں شمارہونے کے علاوہ آزاد کردہ مردوں میں اسلام قبول کرنے والے پہلے فرد تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت میں ایسے سرشار تھے کہ انھوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی غلامی میں رہنے کو آزادی پر ترجیح دی۔بچپن میں ڈاکوئوں نے حضرت زید کو اٹھا لیا تھا اور عکاظ کے بازار میں حکیم بن حزام نے اپنی پھوپھی ام المومنین حضرت سیدہ بی بی خدیجہ ؑ کی خدمت کے لئے خریدلیا۔ ام المومنین حضرت سیدہ بی بی خدیجۃ الکبری ؑ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے تزوج کے بعد حضرت زیدکو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حوالے کر دیا۔جب ان کے والد اور چچا فدیہ دے کر انہیں لے جانے آئے تو حضرت زیدؓ واپس جانے کے بجائے خدمت اقدس میں رہنے کا فیصلہ کر کے ذات اطہرؐ کے ساتھ اپنے عشق و وارفتگی کا پر اثر مظاہرہ کیا۔ حضور انور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا حسن سلوک، شفقت و رحمت ان کے لئے ایسی نعمت بے بہا تھی جس پر ہر چیز قربان کر دینا ضروری سمجھتے تھے۔ بعثت شریف سے پہلے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حضرت زیدؓ کو بیٹا فرمایا کرتے تھے اسی وجہ سے وہ زید بن محمدؐ سے مشہور ہو گئے تھے لیکن جب یہ حکم خداوندی نازل ہوا کہ لوگوں کو ان کے والد کے نام سے پکارو تو آپ زید بن حارثہؓ سے پکارے جانے لگے۔ حضرت زیدؓ ان حضرات میں شامل تھے جنھیں لکھنے پڑھنے پر عبور حاصل تھا۔ حضرت زیدؓ خط و کتابت کے فرائض انجام دیا کرتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت زیدؓ سے ام ایمنؓ کا نکاح کر دیا تھا جن سے حضرت اسامہؓ  تولد ہوئے۔ حضرت زیدؓ ، حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت اقدس میں ہمہ وقت باریاب رہتے۔حاضر باش صحابہ میں حضرت زیدؓ کو اس وجہ سے بھی خصوصیت حاصل تھی کہ وہ خادم خاص تھے۔ جب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قدمت میں آئے، تادم زیست در رسول ؐ سے وابستہ رہے۔بڑے متقی اور قناعت پسند تھے۔ ان کے کلاہ افتخار میں یہ طرہ مزید لگا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے چچا حضرت حمزہ بن عبد المطلبؓ کے ساتھ ان کی مواخاۃ کروائی۔ حضرت زیدؓ اپنی گونا گو خصوصیات کے باعث مہاجر و انصار صحابہ میں امتیازی حیثیت رکھتے تھے۔ نہایت شجاع اور زبردست تیر انداز تھے۔ انھوں نے غزوہ بدر و احد و خندق و خیبر میں سیف کے جوہر دکھائے۔ حدیبیہ میں موجود تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے غزوہ مرسیع کے موقع پر انہیں مدینہ میں نگران کار بنا کر سفر فرمایا تھا۔ حضرت زیدؓ کی جراء ت و بسالت کے باعث حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کو اسلامی لشکروں پر مختلف اوقات میں امیر مقرر کیا تھا۔ پروفسیر سید محمد حسیب الدین حمیدی نے بتا یا کہ حضرت زیدؓ کے والد حارثہ تھے ان کے جد کا نام عبدود تھا مورث اعلیٰ قضاعہ سے تھے جن کا سلسلہ نسب یعرب بن قحطان تک پہنچتا ہے۔ حضرت زیدؓ پست قامت، گندم گوں اور پر کشش شخصیت کے مالک تھے۔ ان کی کنیت ابو سامہ تھی۔ایک دختر رقیہ بھی تھیں۔ غزوہ موتہ کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انہیں امیر لشکر بنا کر روانہ فرمایا اور اکابر صحابہ آپ کے زیر قیادت لشکر میں موجود تھے۔ اسی غزوہ میں حضرت زید بن حارثہؓ نے شہادت پائی۔ اس وقت آپ کی عمر ۵۵ سال تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حضرت زیدؓ کی شہادت پر بہت رنجیدہ خاطر ہوئے اور ان کے لئے دعائے مغفرت فرمائی۔ حضرت زید بن حارثہ ؓ کی ساری زندگی اطاعت حق تعالیٰ اور اتباع رسالت پناہی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے عبارت تھی۔اجلاس کے اختتام سے قبل بارگاہ رسالت پناہی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں سلام حضرت تاج العرفاءؒ پیش کیا گیا۔ ذکر جہری اور دعاے سلامتی پر آئی ہرک کا’’۱۶۰۴‘‘ واں تاریخ اسلام اجلاس تکمیل پذیر ہوا۔ الحاج محمد یوسف حمیدی نے آخر میں شکریہ ادا کیا۔