بعثت شریف سے پہلے حضور پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنی حقیقت اور اپنے منصب نبوت سے خوب واقف تھے

اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا ( آئی ہرک) کا ’’۱۶۰۲‘‘ واں تاریخ اسلام اجلاس۔پروفیسرسید محمدحسیب الدین حمیدی کا لکچر

بعثت شریف سے پہلے دنیا نے حضور پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ایک کامل انسان کی حیثیت سے پہچان لیا تھا۔ مگر ابھی اس منصب (نبوت و رسالت)کا آشکار ہونا باقی تھا جس کے لئے رب العالمین نے آپ کا ظہور فرمایا تھا۔ سیرت اقدس جو دنیا کے سامنے بعثت سے پہلے نمودار تھی اسی منصب کی عملی تجلی تھی۔’’ اصولی حیثیت سے توحید پروردگار کی حقیقت آپ کے لئے نئی نہیں تھی۔ وہ حضرت ابراھیم علیہ السلام کی ودیعت تھی جو خود آپ کے آبائو اجداد کے پاس وراثتاً چلی آرہی تھی‘‘۔مولیٰ تعالیٰ کی معرفت کے لئے آپ کو کسی غار میں بیٹھ کر سوچنے کی ضروت نہیں تھی۔ مگر حکمت الٰہی اس کی متقاضی تھی۔ حضور پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اللہ رب العزت کی عبادت کرنے کے لئے تنہائی کو پسند فرماتے تھے اسی لئے بعثت سے کئی برس پہلے سے آپ نے غار حرا کو اپنا مرکز بنا لیا تھا۔ حضور پاک خاتم النبیین احمد مجتبیٰ احمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنی حقیقت اور اپنے منصب سے خوب واقف تھے۔ سرکار پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مبعوث برسالت ہونے کے معنی یہ ہے کہ ابھی تک جو کام صرف خاموش سیرت کے مظاہرے سے ہو رہا تھا وہ اب اعلان تولی کی شکل اختیار کر لے۔ چنانچہ آپ کی بعثت آپ کا اعلان نبوت کرنا ہے۔ بعثت شریف کے وقت حضور پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عمر شریف ۴۰ بر س تھی۔ان حقائق کا اظہار پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی جانشین شہزادئہ امام علی موسیٰ رضاؑڈاکٹر سید محمد حمید الدین شرفی  ؒ نے آج صبح ۱۰ بجے ’’ایوان تاج العرفاء حمیدآباد‘‘ واقع شرفی چمن ،سبزی منڈی قدیم اور ۱۲ بجے دن جامع مسجد محبوب شاہی مالاکنٹہ روڈ روبرو معظم جاہی مارکٹ میںاسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا (آئی ہرک) کے زیر اہتمام منعقدہ ’۱۶۰۲‘ویں تاریخ اسلام اجلاس میں سیرت سید کونین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر لکچرمیں کیا۔انھوں نے ان حقائق کو علامہ سید علی نقی  ؒکی تاریخ ّاسلام کے حوالے سے پیش کیا۔ پروفیسرسید محمد حسیب الدین حمیدی نے ایک آیت جلیلہ کا تفسیری ، ایک حدیث شریف کا تشریحی اور ایک فقہی مسئلہ کا توضیحی مطالعاتی مواد بھی پیش کیا۔انھوں نے انگلش لکچر سیریز کے ضمن میں حیات طیبہؐ ہی کے مقدس موضوع پراپنا ’۱۳۲۶‘ واں سلسلہ وار لکچر دیا اور ایک مہاجر ایک انصاری سلسلہ کے تحت صحابی رسول مقبولؐ حضرت نبیط بن جابرؓ کے احوال شریف پر لکچر دئیے۔اپنے لکچر کے دوسرے حصہ میں پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی نے بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب حضور اکرم محمد  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صحابہ کرام کو اپنے فضل و کرم سے بے حد عزت و عظمت اور مراتب اعلیٰ سے سرفراز فرمایا ہے اور انھیں اپنی رضا و خوشنودی کی سند عطا فرما دی۔ ان خوش مقدر ہستیوں نے خودزبان حق ترجمان سے دعوت ایمان پانے کا شرف حاصل کیا ۔ ان کے سامنے اللہ تعالیٰ کا کلام جلیل حبیب کبریا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سینہ اطہر و اقدس پر نازل ہوتا اور ان عظیم المرتبت صحابہ کرام کو ارشادات اقدس راست سننے اور تعمیل ارشاد و پیرویٔ سنت کی سعادت ملا کرتی۔ انھیں علو منزلت بزرگوں میں حضرت نُبیط بن جابرؓ بھی شامل تھے ۔ مدینہ منورہ کے معزز قبیلہ خزرج سے تعلق رکھتے تھے اور ان کا جدی سلسلہ عمرو بن مالک بن نجار سے جاملتا ہے حضرت نبیطؓ بن جابر غزوہ احد کے موقع پر حاضر تھے۔ وہ دل کی گہرائیوں سے حق کی فتح کے آرزومند اور راہ حق میں سب کچھ قربان کر دینے کی متمنی تھے اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی محبت و فرمانبرداری سے ان کی حیات عبارت تھی حضرت نبیطؓ پر سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی توجہات کرم کا ان کے معاصرین کو خوب اندازہ تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کی شادی فریعہؓ بنت ابی امامہ اسعد بن زرارہؓ سے کی تھی۔ ان کے بطن سے تولد ہونے والے فرزند کا نام عبد الملک تھا۔ حضرت اسعد بن زرارہؓ نے فریعہ ؓاور ان کی بہنوں کی خانہ آبادی کے انتظام فرمانے کا خود حضور انور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے معروضہ کیا تھا۔ حضرت نبیطؓ عہد خلفاء راشدینؓ میں موجود تھے اور عرصہ دراز تک حیات رہے۔ بعض محققین نے حضرت نبیطؓ کے ایک اور فرزند سلمہ کا بھی ذکر کیا ہے جن سے بعض احادیث مروی ہیں۔اجلاس کے اختتام سے قبل بارگاہ رسالت پناہی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں سلام حضرت تاج العرفاءؒ پیش کیا گیا۔ ذکر جہری اور دعاے سلامتی پر آئی ہرک کا’’۱۶۰۲‘‘ واں تاریخ اسلام اجلاس تکمیل پذیر ہوا۔ الحاج محمد یوسف حمیدی نے آخر میں شکریہ ادا کیا۔