قریش کے خطرناک عزائم کے پیش نظر حضرت ابو طالبؓ نے بنو ہاشم کے تمام لوگوں کو جمع کیا اور حضور پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حفاظت کا حکم دیا

اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا ( آئی ہرک) کا ’’ ۱۶۱۰‘‘ واں تاریخ اسلام اجلاس۔ صاحبزادہ سید محمد علی موسیٰ رضا حمیدی  کا لکچر

رسول پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نبوت کی شہرت سارے عرب میں ہو گی۔ ساتھ ہی قریش کی دشمنی بھی بہت بڑھ گئی۔ قریش کے خطرناک عزائم کے پیش نظر حضرت ابو طالبؓ نے بنو ہاشم اور بنو عبد المطلب کے تمام لوگوں کو اکٹھا کر کے تمام حالات بیان کئے اور آخر میں فرمایا کہ جس طرح ہو سکے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حفاظت کی جائے۔ قریش اسلام کو روکنے کے لئے سرکار پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر تہمت طرازی شروع کر دی۔ جو بھی مکہ معظمہ آتا اسے حضور پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے خبردار کرتے اور کہتے کہ ان سے ہر گز نہ ملنا۔ آپ پر شاعری، جادوگری اور کہانت کی تہمتیں لگاتے۔ مگر حضور پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم برابر احکام خداوندی کا اظہار فرماتے اور مسلسل لوگوں کو اللہ وحدہ لاشریک کی طرف بلاتے۔ قریش، جنھوں نے وفد کی شکل میں حضرت ابو طالبؓ سے تین دفعہ ملاقات کی تا کہ آپ سرکار پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اسلام کی تبلیغ سے روکیں مگر جب انھیں احساس ہو گیا کہ حضرت ابو طالبؓ سرکار پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو روکنے کے بجائے ان کی حفاظت کا بندوبست کر رہے ہیں تو اب انھوں نے راست سرکار پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے بات چیت کا آغاز کیا۔صاحبزادہ سید محمد علی موسیٰ رضا حمیدی علی پاشاہ صاحب نبیرہ شہزادئہ امام علی موسیٰ رضاؑڈاکٹر سید محمد حمید الدین شرفی  ؒ نے آج صبح ۱۰ بجے ’’ایوان تاج العرفاء حمیدآباد‘‘ واقع شرفی چمن ،سبزی منڈی قدیم اور ۱۲ بجے دن جامع مسجد محبوب شاہی مالاکنٹہ روڈ روبرو معظم جاہی مارکٹ میں اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا (آئی ہرک) کے زیر اہتمام منعقدہ ’۱۶۱۰‘ویں تاریخ اسلام اجلاس کے دونوںسیشنوں میں سیرت سید کونین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر لکچر دئیے۔انھوں نے سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے سیرت النبیؐ ابن ہشام کے حوالے سے بتایا کہ عتبہ بن ربیعہ جو ایک رئیس تھا صحن حرم میں قریش کی مجلس میں بیٹھا ہوا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی حرم شریف میں تنہا تشریف فرما تھے اور مولیٰ تعالیٰ کی عبادت میں مصروف تھے۔عتبہ نے کہا ’’اے گروہ قریش! میں جاکر (حضور اکرم) محمد (مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے گفتگو کیوں نہ کروں اور ان کے سامنے بعض ایسی باتیں پیش کیوں نہ کروں جن میں سے کچھ نہ کچھ وہ قبول کر لیں۔ وہ ان میں سے جو رعایتیں چاہے ہم انھیں دے دیں اور وہ ہم سے باز رہیں‘‘۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب حضرت حمزہ بن عبد المطلبؓ نے اسلام قبول کر لیا تھا اور عتبہ اور دوسرے روئسا قریش نے دیکھ لیا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھی زیادہ ہو رہے ہیں۔ عتبہ کے ساتھ جو لوگ تھے انھوں نے کہا’’ کیوں نہیں؟ ‘‘عتبہ اٹھ کر حضور پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس جا بیٹھا اور کہا ’’اے میرے بھتیجے! تمہیں معلوم ہے کہ تم ہماری نظروں میں باعتبار خاندان بڑے رتبہ والے ہو۔ اور نسب کے لحاظ سے بھی اعلیٰ ہو۔ تم اپنی قوم کے پاس بڑی اہمیت رکھنے والا مسئلہ لائے ہو جس کے ذریعہ سے تم نے اس کی جماعت کو تتر بتر کر دیاہے ۔ ان کے عقل مندوں کو بیوقوف بنا دیا ہے، ان کے معبودوں اور دین کو عیب دار کر دیا ہے اور ان کے اگلے بزرگوں کو کافر قرار دیا ہے۔ میری بات سنو۔ میں چند باتیں تمہارے غور و فکر کے لئے پیش کرتا ہوں۔ شاید کہ تم اس میں سے کچھ نہ کھ قبول کر لو‘‘۔ حضور پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ’’اے ابو ولید! کہو۔‘‘ اس نے کہا ’’اگر آپ اس مسئلہ کے ذریعہ سے جسے آپ لائے ہو صرف مال چاہتے ہو تو ہم آپ کے لئے اس قدر مال جمع کر دیں گے کہ آپ سب سے زیادہ مالدار ہو جائو گے۔ اگر آپ اعلیٰ مرتبہ چاہتے ہو تو ہم آپ کو اپنا سردار بنا لیں گے کہ کوئی بات آپ کے بغیر قطعی نہ ہو۔ اگر آپ اس کے ذریعہ سے حکومت چاہتے ہو تو ہم آپ کو اپنا بادشاہ بنا لیتے ہیں‘‘۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے عتبہ کی باتیں سن کر قرآن پاک کی سورہ سجدہ کی آیتیں تلاوت فرمائی جس کا ترجمہ یہ ہے ’’بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ حٰمٓ۔ یہ رحم کرنے والے مہربان کی جانب سے اتاری ہوئی کتاب ہے۔ اس کی آیتوں میں خوب تفصیل واضح کی گئی ہے۔ قرآن عربی زبان میں ہے اس قوم کے لئے جو جانتی ہے۔ خوش خبری سنانے والے اور ڈرانے والے۔ پھر بھی ان کی اکثریت نے منہ پھیر لیا اور وہ سنتے ہی نہیں۔ اور انھوں نے کہا کہ آپ جس کی طرف ہمیں بلارہے ہیں ہمارے دل تو اس سے پردے میں ہے….‘‘  سرکار پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس سورت کو پڑھتے گئے یہاں تک کہ جب سجدہ کی آیت آئی تو آپ نے سجدہ کیا۔ عتبہ خاموش سنتا رہا۔ اس کے بعد وہ اٹھا اور اپنے ساتھیوں کے پاس چلا گیا۔ جب لوگوں نے پوچھا تو عتبہ نے کہا ’’میں نے ایسی بات سنی ہے کہ واللہ کبھی نہیں سنی۔ نہ وہ شعر ہے، نہ جادو اور نہ کہانیت‘‘۔ اس نے کہا کہ’’ اے گروہ قریش! میری بات سنو، اس شخص کو اسی حالت میں چھوڑ دو۔ کیونکہ واللہ! اس کی بات جو میں نے سنی ہے اسے بڑی اہمیت حاصل ہوگی۔اگر یہ عربوں پر غلبہ حاصل کر لے تو ا ن کی حکومت تمہاری حکومت ہوگی اور ان کی عزت تمہاری عزت ہوگی‘‘۔ اجلاس کے اختتام سے قبل بارگاہ رسالت پناہی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں حضرت تاج العرفاءؒ کا عرض کردہ سلام پیش کیا گیا۔ ذکر جہری اور دعاے سلامتی پر آئی ہرک کا’۱۶۱۰‘ واں تاریخ اسلام اجلاس اختتام پذیر ہوا۔الحاج محمد یوسف حمیدی نے آخر میں شکریہ ادا کیا۔