رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا پیغام اسلام، عرب و اقوام عالم کے لئے پوری زندگی کے انقلاب کا پیغام تھا
اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا ( آئی ہرک) کا ’’۱۶۰۶‘‘ واں تاریخ اسلام اجلاس۔پروفیسرسید محمدحسیب الدین حمیدی کا لکچر
اللہ رب العزت نے جب آیت فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرْ وَ أَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِکِیْنَ (حجر۹۴) ’’علانیہ کہہ دو جس بات کا تمہیں حکم ہے اور مشرکین سے منہ پھیر لو‘‘ نازل فرمائی اور ارشاد فرمایا وَقُلْ اِنِّیٓ اَنَا النَّذِیْرُ الْمُبِیْنُ (حجر ۸۹) ’’اور فرمائو کہ میں ہی ہوں صاف ڈر سنانے والا(اس عذاب سے)، تو حضور پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس ارشاد کی تعمیل میں پورا اہتمام کیا۔ دعوت حق کو آشکار کرنے کے لئے صفا پر چڑھ کر قبائل قریش کو نام بنام آواز دی جب سب جمع ہو گئے تو سرکار پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ’’اگر میں تم سے کہوں کہ پہاڑ کے عقب سے ایک لشکر آرہا ہے تو تم کو یقین آئے گا؟‘‘ سب نے کہا کہ ’’ہاں کیونکہ ہم نے آپ کو ہمیشہ سچ ہولتے سنا ہے‘‘۔ تب سرکار پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ’’تو میں کہتا ہوں کہ اگر تم ایمان نہ لائو گے تو تم پر شدید عذاب نازل ہوگا‘‘۔ ’’میں عذاب شدید سے پہلے تمہیں واضح طور پر بروقت ڈرانے کے لئے بھیجا گیا ہوں میری اور تمہاری مثال ایسی ہے جیسے ایک شخص ہو جس نے دشمن کو دیکھ لیا ہو۔ پس وہ چل پڑے تا کہ رشتہ داروں کو دشمن کی آمد سے باخبر کر دے۔ پھر اسے اندیشہ لاحق ہو جائے کہ دشمن کہیں اس سے پہلے ہی نہ پہنچ جائے۔ دور سے زور زور سے اعلان کرنا شروع کر دے کہ جاگو، جاگو،دشمن پہنچ گیا ،دشمن پہنچ گیا۔ ‘‘ ایک روایت کے مطابق جب آپ نے سب سے یہ اقرار لے لیا کہ سبھوں نے آپ کو ہمیشہ سچ بولتے سنا ہے تو فرمایا ’’مجھے اللہ تعالیٰ نے اپنا رسولؐ بنایا ہے اور مجھے اس پر مامور کیا ہے کہ میں تمہیں ہدایت کر دوں اور بتلائوں کہ یہ جو تم بت پرستی کرتے ہو اور بداعمالیوں میں مبتلا ہو، اس کے نتیجہ میں آتش جہنم کے شعلے ہیں‘‘۔ یہ سن کر قریش کے سارے لوگ برہمی کے عالم میں واپس لوٹ گے۔ کیونکہ سرکار پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جو انھیں دعوت دی تھی اس کے قبول کرنے پر انھیں اپنی پوری زندگی کو تبدیل کرنا تھا۔ان حقائق کا اظہار پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی جانشین شہزادئہ امام علی موسیٰ رضاؑڈاکٹر سید محمد حمید الدین شرفی ؒ نے آج صبح ۱۰ بجے ’’ایوان تاج العرفاء حمیدآباد‘‘ واقع شرفی چمن ،سبزی منڈی قدیم اور ۱۲ بجے دن جامع مسجد محبوب شاہی مالاکنٹہ روڈ روبرو معظم جاہی مارکٹ میںاسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا (آئی ہرک) کے زیر اہتمام منعقدہ ’۱۶۰۶‘ویں تاریخ اسلام اجلاس میں سیرت سید کونین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر لکچرمیں کیا۔ پروفیسرسید محمد حسیب الدین حمیدی نے ایک آیت جلیلہ کا تفسیری ، ایک حدیث شریف کا تشریحی اور ایک فقہی مسئلہ کا توضیحی مطالعاتی مواد بھی پیش کیا۔انھوں نے انگلش لکچر سیریز کے ضمن میں حیات طیبہؐ ہی کے مقدس موضوع پراپنا ’۱۳۳۰‘ واں سلسلہ وار لکچر دیا اور ایک مہاجر ایک انصاری سلسلہ کے تحت صحابی رسول مقبولؐ حضرت زید بن خالد ؓ کے احوال شریف پر لکچر دئیے۔اپنے لکچر کے دوسرے حصہ میں پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی نے بتایا کہ حدیبیہ سے قبل مشرف بہ ایمان ہونے والوں میں حضرت زیدؓ بن خالد نمایاں تھے ان کا نام زید اور کنیت ابو عبد الرحمن تھی ۔ بعض اہل سیر نے ابو ذرعہ اور ابو طلحہ بھی لکھا ہے۔ قبیلہ جھنیہ سے تعلق رکھتے تھے۔ قبول اسلام کے بعد ان کا حدیبیہ میں شریک رہنا معلوم ہے۔ دامن رحمت عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے وابستہ ہونے کے بعد دیار حبیبؐ کو چھوڑنا گوارا نہ ہوا اسی لئے شہر نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں مستقل سکونت اختیار کر لی اور تادم زیست اس ارض مقدس سے وابستہ رہے۔ پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی نے بتایا کہ حضرت زیدؓ بن خالد بڑی خوبیوں کے مالک اور کمالات کے جامع تھے انھوں نے شرف صحبت کی اہمیت اور فضیلت کو جانتے ہوے علوم نبویہؐ سے سباط پھر استفادہ کی سعادت پائی جن کا ثبوت صحابہ میںحضرت سائب کندیؓ اورحضرت سائب ابن خلاد انصاریؓ، تابعین میں سے ان کے فرزندوں اور بعض حضرات کا ان سے روایت کرنا ہے۔ علم و فضل میں جہاں آپ بلند رتبہ تھے وہیں شجاعت و بہادری میں بھی خاص درجہ رکھتے تھے۔ خاص موقعوں پر وہ اپنے قبیلہ جہنیہ کی نمائندگی کیا کرتے تھے۔ فتح مکہ کے موقع پر ان کا قبیلہ پورے جوش ایمان کے ساتھ شریک تھا اور انھیں اپنے قبیلہ کی علمبرداری کا اعزاز حاصل ہوا۔ حضرت زیدؓ بن خالد جہنی طویل عمر پانے والے صحابہ میں شمار ہوتے ہیں انھوں نے ۵۰ھ یا بروایت دیگر ۷۲ھ میں وفات پائی۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ حضرت زید بن خالدؓ نے کوفہ یا بصرہ میں وصال کیا لیکن راجح قول یہی ہے کہ آپ نے دیار حبیب کبریا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مدینہ منورہ میں ہی آخری سانس لی اور یہیں مدفون ہوے۔ وفات کے وقت حضرت زید بن خالدؓ کی عمر شریف ۸۵ سال تھی ان کے دوفرزند خالد بن زید اور ابو حرب کے نام ملتے ہیں۔اجلاس کے اختتام سے قبل بارگاہ رسالت پناہی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں سلام حضرت تاج العرفاءؒ پیش کیا گیا۔ ذکر جہری اور دعاے سلامتی پر آئی ہرک کا’’۱۶۰۶‘‘ واں تاریخ اسلام اجلاس تکمیل پذیر ہوا۔ الحاج محمد یوسف حمیدی نے آخر میں شکریہ ادا کیا۔