حضرت حمزہ بن عبد المطلبؓ کے اسلام قبول کرنے سے سرکار پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بے حد مسرور ہوئے
اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا ( آئی ہرک) کا ’’ ۱۶۱۱‘‘ واں تاریخ اسلام اجلاس۔پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی کا لکچر
حیدرآباد ۔۵؍جنوری( پریس نوٹ) حضور خاتم النبیین محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دعوت کی مقبولیت ،قریش کے غرباء کا خاص طور پر اسلام قبول کرنا اور قریش کی کسی بھی تجویز کو حضورؐ کا نہ قبول کرنا، قریش کو بہت غم و غصہ میں مبتلا ء کر دیا۔ انھوں نے مسلمانوں کو سخت ایذائیں دینے کی ٹھانی۔ جو کوئی اسلام قبول کرتا ان کے ظلم و ستم کا نشانہ بن جاتا اسی دوران ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس سے ابو جہل گزرا تو اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو تکلیف دی اور سخت باتیں کیں۔ سرکار پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اسے کچھ جواب نہیں دیا۔ لیکن عبد اللہ بن جدعان کی ایک باندی جو اپنے گھر میں تھی، ابو جہل کی یہ باتیں سن رہی تھی۔ تھوڑی دیر بعد حضرت حمزہ بن عبد المطلبؓ کمان گلے میں ڈالے شکار سے واپس ہوتے ہوئے وہاں آئے۔ وہ شکاری تھے۔ تیر سے شکارکرتے تھے۔ اکثر شکار کے لئے نکل جایا کرتے اور جب کبھی وہ شکار سے واپس ہوتے تو اپنے گھر والوں کے پاس نہ جاتے جب تک کہ کعبۃ اللہ کا طواف نہ کر لیتے اور جب طواف سے فارغ ہوتے تو قریش کی مجلس میں ٹھہرتے اور ان سے بات چیت کئے بغیر نہ جاتے۔ وہ قریش میں اعزاز رکھنے والے جواں مرد اور سخت طبعیت تھے۔جب وہ اس باندی کے پاس سے گزرے تو اس نے حضرت حمزہؓ سے کہا کہ ’’اے ابو عمارہ! کاش آپ اس آفت کو دیکھتے جو آپ کے بھتیجے (حضور)محمد(رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) پر ابو الحکم بن ہشام(ابو جہل) کی جانب سے آئی۔ اس نے انہیں(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہاں بیٹھے ہوئے پایا تو انہیں ایذا پہنچائی اور نامناسب باتیں کیں اور (حضور )محمد (رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے اس سے بات تک نہ کی‘‘۔پروفسیر سید محمد حسیب الدین حمیدی جانشین شہزادئہ امام علی موسیٰ رضاؑڈاکٹر سید محمد حمید الدین شرفی ؒ نے آج صبح ۱۰ بجے ’’ایوان تاج العرفاء حمیدآباد‘‘ واقع شرفی چمن ،سبزی منڈی قدیم اور ۱۲ بجے دن جامع مسجد محبوب شاہی مالاکنٹہ روڈ روبرو معظم جاہی مارکٹ میں اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا (آئی ہرک) کے زیر اہتمام منعقدہ ’۱۶۱۱‘ویں تاریخ اسلام اجلاس کے دونوںسیشنوں میں سیرت سید کنونین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر لکچر دئیے۔انھوں نے انگلش لکچر سیریز کے ضمن میں حیات طیبہؐ ہی کے مقدس موضوع پراپنا’ ۱۳۳۴‘ واں سلسلہ وار لکچر دیا۔ پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی نے سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے سیرت ابن ہشام کے حوالے سے بتایا کہ حضرت حمزہؓ غصہ میں وہاں سے چلے اور سیدھا ابو جہل کے پاس پہنچے اور اپنی کمان سے ابو جہل کے سر پر وار کیا جس سے ابو جہل کا سر پھٹ گیا۔ حضرت حمزہؓ نے ابو جہل سے کہا کہ ’’تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو تکلیف دیتا ہے؟ لے میں بھی انہیں کے دین پر ہوں۔ میں بھی وہی کرتا ہوں جو وہ کہتے ہیں۔ اگر تجھ سے ہو سکے تو وہی برتائو مجھ سے کر‘‘۔ حضرت حمزہؓ کے اسلام قبول کرنے سے سرکار پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بے حد خوش ہوئے کیونکہ حضرت حمزہؓ قریش میں سب سے زیادہ معزز نوجوان تھے۔ اس کے ساتھ ہی وہ قریشی نوجوانوں میں سب سے زیادہ بہادر، طاقتور اور خود دار انسان تھے۔ حضرت حمزہ ؓ کے اسلام لانے سے قریش میں کھلبلی مچھ گئی اور تمام مسلمانوں میں مسرت کی لہر۔ طبقات ابن سعد میں ہے کہ حضرت حمزہؓ کے اسلام قبول کرنے سے مسلمانوں کو قوت حاصل ہوگئی۔ اور آپ کے ایمان لانے کا واقعہ نبوت کے چھٹے سال کا ہے۔ اجلاس کے اختتام سے قبل بارگاہ رسالت پناہی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں حضرت تاج العرفاءؒ کا عرض کردہ سلام پیش کیا گیا۔ ذکر جہری اور دعاے سلامتی پر آئی ہرک کا’۱۶۱۱‘ واں تاریخ اسلام اجلاس اختتام پذیر ہوا۔الحاج محمد یوسف حمیدی نے آخر میں شکریہ ادا کیا۔