ملک حبشہ کو دوسری ہجرت اور مہاجرین حبشہ کے خلاف نجاشی کے پاس قریشی وفد
اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا ( آئی ہرک) کا ’’ ۱۶۱۸‘‘ واں تاریخ اسلام اجلاس۔پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی کا لکچر
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اجازت پر جو لوگ حبشہ کی طرف روانہ ہوئے ان میں قابل ذکر حضرت جعفر بن ابی طالبؓ کی ذات گرامی تھی۔اکثر سیرت نگاروں اور محققین نے آپ کی اپنی زوجہ حضرت اسماء بنت عمیسؓ کے ساتھ ہجرت کو ملک حبشہ کی جانب دوسری ہجرت کرنے والوں میں شامل کیا ہے۔ حضرت جعفر بن ابی طالبؓ اس قافلہ کے امیر تھے۔ایک روایت کے مطابق آپ کے ساتھ ۸۳ مرد اور ۱۸ خواتین شامل تھے۔ جب مسلمان حبشہ پہنچے تو انھیں وہاں امن ملا، آزادی ملی اور اطمینان کے ساتھ وہاں پر وہ اللہ رب العزت کی عبادت کرنے لگے۔ یہ بات جب قریش کو معلوم ہوئی تو وہ بلبلا اٹھے۔ ایک تو جب انھوں نے تعاقب کیا وہ مسلمانوں کو پا نہ سکے دوسرے اس طرح سے مسلمان اپنے دین پر آزادی کے ساتھ عمل کریں، ان کے لئے ناقابل قبول تھا۔ ان کا مقصد تھا کہ کسی طرح سے کہیں بھی اسلام کو پنپنے نہ دیں۔ چنانچہ انھوں نے طئے کیا کہ قریش کے دو آدمیوں کو سرزمین حبشہ ہدیے اور تحائف کے ساتھ بھیجیںجو وہ بادشاہ حبشہ نجاشی اور اس کے وزراء کو دیں پھر انھیں مسلمانوں کو لوٹا دینے پر زور دیں۔ قریش نے اس کام کے لئے عمرو بن العاص اور عبد اللہ بن ابی ربیعہ کو چنا۔ان حقائق کا اظہار پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی جانشین شہزادئہ امام علی موسیٰ رضاؑڈاکٹر سید محمد حمید الدین شرفی ؒ نے آج صبح ۱۰ بجے ’’ایوان تاج العرفاء حمیدآباد‘‘ واقع شرفی چمن ،سبزی منڈی قدیم اور ۱۲ بجے دن جامع مسجد محبوب شاہی مالاکنٹہ روڈ روبرو معظم جاہی مارکٹ میںاسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا (آئی ہرک) کے زیر اہتمام منعقدہ ’۱۶۱۸‘ویں تاریخ اسلام اجلاس کے دونوں سیشنوں میں سیرت سید کونین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر لکچر میں کیا۔ پروفیسرسید محمد حسیب الدین حمیدی نے ایک آیت جلیلہ کا تفسیری اور ایک حدیث شریف کا تشریحی مطالعاتی مواد پیش کیا۔ انھوں نے انگلش لکچر سیریز کے ضمن میں بھی سیرت سید کونین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اسی موضوع پراپنا ’۱۳۴۱‘ واں سلسلہ وار لکچر دیا۔ پروفیسر حسیب الدین حمیدی نے سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ ابن ہشام کے مطابق جب حضرت ابو طالبؓ کو قریش کی یہ حرکت معلوم ہوئی تو انھوں نے چند اشعار نجاشی کو پڑوسیوں سے اچھے سلوک اور ان کی حفاظت پر آمادہ کرنے کے لئے کہے۔ تَعَلَّمْ اَبْیَتَ اللَّعْنَ اَنَّکَ مَاجِدٌ کَرِیْمٌ فَلَایَثْقَی لَدَیْکَ الْمُجَانِبُ (ترجمہ) اللہ تعالیٰ آپ کو (نجاشی کو) بدنامی سے بچائے۔ یاد رہے کہ آپ کی ہستی عظمت اور شرافت والی ہستی ہے۔ آپ کے سائے میں پناہ لینے والے کو محرومی نہ نصیب ہونی چاہئیے۔ حضرت ام سلمہؓ فرماتی ہیں کہ جب ہم سرزمین حبشہ میں اترے تو وہاں ہمیں نجاشی کا بہترین پڑوس مل گیا ۔دین میں امن نصیب ہوا اور ہم اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مشغول ہو گئے۔ نہ ہمیں کوئی تکلیف پہنچاتا تھا اور نہ ہم کوئی بری بات سنتے تھے۔ جب اس حالت کی اطلاع قریش کو ہوئی تو انھوں نے آپس میں مشورے کئے کہ ہمارے بارے میں نجاشی کے پاس اپنے دو آدمی بھیجیں اور نجاشی کے پاس مکہ کے سامان میں سے نایاب سمجھی جانے والی چیزیں بطور ہدیہ روانہ کریں۔ مکہ سے حبشہ کو جانے والی چیزوں میں سے بہترین دباغت کئے ہوئے چمڑے تھے۔ اس کے لئے بہت سے چمڑے اکٹھے کئے اور اس کے وزیروں میں سے کسی وزیر کو نہیں چھوڑاجس کے لئے ہدایہ نہ بھیجا ہو۔ یہ ہدیہ عبد اللہ بن ابی ربیعہ اور عمرو بن العاص کے ساتھ روانہ کئے۔ ان دونوں سے کہہ دیا کہ نجاشی سے مسلمانوں کے متعلق گفتگو کرنے سے پہلے ہر وزیر کو اس کا ہدیہ پہنچا دو۔ اور اس کے بعد نجاشی کے پاس اس کے ہدیے پیش کرو۔ پھر استدعا کرو کہ مسلمانوں کو گفتگو کرنے سے پہلے تمہارے حوالے کر دو۔ وہ دونوں نجاشی کے پاس پہنچے۔ انھوں نے اس سے گفتگو کرنے سے پہلے اس کے وزیروں میں سے ہر ایک کے پاس اس کا ہدیہ پہنچایا اور ان سے کہا کہ ’’ہم میں سے چند کم عمر لوگوں نے اپنی قوم کا دین بھی اختیار نہیں کیا اور تمہارے دین میں بھی داخل نہ ہوئے۔ بلکہ ایک نیا دین ایجاد کیا ہے جس سے نہ ہم واقف ہیں اور نہ تم۔ انھوں نے تمہارے بادشاہ کے ملک میں پناہ لی ہے۔ اس لئے جب ہم بادشاہ کے پاس ان کے متعلق گفتگو کریں تو تم مشورہ دینا کہ بادشاہ انھیں ہمارے حوالے کر دے‘‘۔پھر وہ دونوں نجاشی کے پاس حاضر ہوئے ، اسے ہدیے و تحائف پیش کئے پھر اس سے کہا کہ ہم میں سے چند کم سن لوگوں نے اپنی قوم کے دین سے علیحدگی اختیار کی ہے وہ آپ کے دین میں بھی داخل نہیں ہوے اور ایک نیا دین ایجاد کیا ہے۔ ہمارے معززین قوم چاہتے ہیں کہ انھیں آپ واپس بھیج دیں۔ عمرو بن العاص اور عبد اللہ بن ابی ربیعہ چاہتے تھے کہ بادشاہ کسی طرح سے مسلمانوں سے گفتگو نہ کریں۔ اس کے وزیروں نے بھی یہ دونوں کی تائید کی۔ مگر بادشاہ نجاشی اس بات پر خفا ہوا اور کہا کہ ’’نہیں! خدا کی قسم! جب ایسی حالت ہے تو میں انھیں ہر گز ان دونوں کے سپرد نہیں کروں گا۔ اور نہ ایسا ارادہ ان لوگوں کے متعلق کیا جاسکتا ہے جنھوں نے میرے یہاں پناہ لی ہے۔ میں انھیں بلائوں گا اور ان سے دریافت کروں گا۔جب تک ہم دوسرے فریق کی بات نہ سن لیں کوئی فیصلہ نہیں کر سکتے‘‘۔ اجلاس کے اختتام سے قبل بارگاہ رسالت پناہی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں حضرت تاج العرفاءؒ کا عرض کردہ سلام پیش کیا گیا۔ ذکر جہری اور دعاے سلامتی پر آئی ہرک کا’۱۶۱۸‘ واں تاریخ اسلام اجلاس اختتام پذیر ہوا۔ جناب الحاج محمدیوسف حمیدی نے آخر میں شکریہ ادا کیا۔