رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جان و ایمان کے تحفظ کے لئے صحابہ کرام کو حبشہ کی طرف ہجرت کی اجازت مرحمت فرمائی

اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا ( آئی ہرک) کا ’’ ۱۶۱۷‘‘ واں تاریخ اسلام اجلاس۔پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی کا لکچر

جب کفار مکہ نے جور و ستم کی حد کر دی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جان و ایمان کے تحفظ کے لئے صحابہ کرام کو حبشہ کی طرف ہجرت کی اجازت مرحمت فرمائی۔ یہ واقعہ ۵ ہجری کا ہے۔ ابن ہشام نے لکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ’’تم لوگ حبش چلے جائو تو بہتر ہے کیوں کہ وہاں کا بادشاہ کسی پر ظلم نہیں کرتا اور وہ صدق و راستی کی سرزمین ہے۔ یہاں تک کہ اللہ تمہارے واسطے کشادگی فرمائے اور جس سختی میں تم ہو اسے دور فرمائے‘‘۔ اس اجازت کے بعد بارہ مرد اور چار عورتوں پر مشتمل ایک قافلہ حضرت عثمان بن عفانؓ کی سرگردگی میں بندرگاہ شعیبہ سے جہاز میں سوار ہو کر حبش کو روانہ ہو گیا۔ حضرت عثمانؓ کے ساتھ آپ کی زوجہ محترمہ حضرت بی بی سیدہ رقیہؓ بنت رسول مقبول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی تھیں۔ان کے علاوہ حضرت ابو حذیفہؓ بن عتبہ اور ان کی زوجہ حضرت سہلہؓ بنت سہیل بن عمرو، حضرت زبیر بن العوامؓ، حضرت مصعب بن عمیرؓ، حضرت عبد الرحمن بن عوفؓ،حضرت ابو سلمہؓ بن عبد الاسد اور ان کی بی بی حضرت ام سلمہؓ بنت ابی امیہ ، حضرت عثمان بن مظعونؓ، حضرت عامر بن ربیعہؓ اور ان کی زوجہ حضرت لیلیٰ بنت ابی حشمہؓ، حضرت ابو تیرہ بن ابی رہمؓ یا ابو حاطب بن عمرؓ اور حضرت سہلؓ بن بیضاءؓ کے نام کتب سیر میں حبشہ کی طرف پہلی ہجرت کے ضمن میں ملتے ہیں۔ ابن ہشام کے مطابق ان تمام لوگوں کے صدر حضرت عثمان بن مظعونؓ تھے۔  ان حقائق کا اظہارپروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی جانشین شہزادئہ امام علی موسیٰ رضاؑڈاکٹر سید محمد حمید الدین شرفی  ؒ نے آج صبح ۱۰ بجے ’’ایوان تاج العرفاء حمیدآباد‘‘ واقع شرفی چمن ،سبزی منڈی قدیم اور ۱۲ بجے دن جامع مسجد محبوب شاہی مالاکنٹہ روڈ روبرو معظم جاہی مارکٹ میںاسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا (آئی ہرک) کے زیر اہتمام منعقدہ ’۱۶۱۷‘ویں تاریخ اسلام اجلاس کے دونوں سیشنوں میں سیرت سید کونین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر لکچر میں کیا۔ پروفیسرسید محمد حسیب الدین حمیدی نے ایک آیت جلیلہ کا تفسیری اور ایک حدیث شریف کا تشریحی مطالعاتی مواد پیش کیا۔ انھوں نے انگلش لکچر سیریز کے ضمن میں بھی اسی عنوان کے تحت سیرت سید کونین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر اپنا ’۱۳۴۰‘ واں سلسلہ وار لکچر دیا۔ پروفیسر حسیب الدین حمیدی نے سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ سیرت حلبیہ نے ایک روایت حضرت لیلیٰؓ زوجہ حضرت عامر بن ربیعہؓ سے نقل کی ہے کہ ’’ہمارے اسلام کے معاملے میں ہم پر سب سے زیادہ سختی کرنے والے شخص عمر ؓبن خطاب تھے۔ چنانچہ جب حبشہ کو ہجرت کے وقت روانگی کے لئے میں اپنے اونٹ پر سوار ہو رہی تھی تو اچانک وہاں حضرت عمر  ؓ آگئے۔ انہوں نے مجھے اس حال میں دیکھ کر پوچھا کہ’’ ام عبد اللہ! کہاں کا ارادہ ہے؟‘‘ میں نے کہا ’’تم لوگوں نے ہمیں ہمارے دین کے معاملے میں زبردست تکلیفیں پہنچائی ہیں۔ اب ہم اللہ کی زمین میں کہیں پناہ ڈھونڈنے کے لئے نکل رہے ہیں جہاں تمہاری ایذا رسانیوں سے نجات مل سکے۔‘‘ یہ سن کر حضرت عمرؓ متاثر ہوے اور انہوں نے کہا ’’اللہ تمہارا ساتھی ہو‘‘۔ یہ کہہ کر وہ چلے گئے۔ اسی وقت میرے شوہر عامرؓ ابن ربیعہ آگئے۔ میں نے ان کو بتلایا کہ آج تو عمر کا دل پسیجا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ اس پر حضرت عامرؓ نے کہا ’’کیا تمہیں امید ہے کہ عمر مسلمان ہو جائیں گے؟‘‘۔ پھر حضرت عامر بن ربیعہؓ نے اس سلسلہ میں اپنے شک و تردد کا اظہار کیا۔ چونکہ حضرت عامرؓ بن ربیعہ مسلمانوں کے خلاف حضرت عمرؓ کی سختی کو دیکھتے تھے اس لئے ان کا مطلب یہ تھا کہ یہ بات بالکل ناممکن ہے کہ عمر ؓ بن خطاب جیسا شخص مسلمان ہو جائے۔ یہ تمام اصحاب نے مکہ سے بڑی خاموشی اور رازداری میں ہجرت کی اور ساحل پہنچ کر تاجروں کے جہازوں پر نصف دینار کی اجرت پر سوار ہو گئے۔ جب قریش کو معلوم ہوا تو ان کا تعاقب ساحل تک کیا مگر مسلمانوں کو نہ پا سکے۔اجلاس کے اختتام سے قبل بارگاہ رسالت پناہی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں حضرت تاج العرفاءؒ کا عرض کردہ سلام پیش کیا گیا۔ ذکر جہری اور دعاے سلامتی پر آئی ہرک کا’۱۶۱۷‘ واں تاریخ اسلام اجلاس اختتام پذیر ہوا۔ جناب الحاج محمدیوسف حمیدی نے آخر میں شکریہ ادا کیا۔