Shahzadah Musa Raza

شہزادہ امام علی ابن موسیٰ رضا علیہ السلام 

   سید السادات ڈاکٹر سید محمد حمید الدین حسینی رضوی قادری شرفی رحمۃ اللّٰہ علیہ   

Shahzadah Imam Ali Musa Raza (Alaihissalaam)

Dr Syed Mohammed Hameeduddin Hussaini Razvi Quadri Sharafi (RahmathUllah Alaihi)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی صاحبزادی شہزادی کونین، سیدۃ النساء العٰلمین سیدہ فاطمہ زہرا علیھا السلام فضائل و خصائص میں منفرد

اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا ( آئی ہرک) کا ’’۱۶۰۹‘‘ واں تاریخ اسلام اجلاس۔پروفیسرسید محمدحسیب الدین حمیدی کا لکچر

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی صاحبزادی شہزادیٔ کونین سیدئہ مستورات عالم اور جنتی عورتوں کی سردارکا اسم گرامی فاطمہ علیھا السلام ہے۔ خاتون جنت بی بی سیدہ فاطمہ علیھا السلام کے القاب شریفہ زہرا، طاہرہ، مطہرہ، زاکیہ، راضیہ اور بتول ہیں۔ اسم شریف فاطمہ کی توجیہہ یہ ملتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اور آپ کے چاہنے والوں کو آتش جہنم سے محفوظ کیا۔ بتول لقب کی وجہ یہ ہے کہ دینداری، فضل و کمال اور حسب و نسب میں ممتاز ہیں۔حضرت سیدہ فاطمہ زہراؑ میں بہجت، زہرت اور جمال و کمال بہت زیادہ تھا اسی مناسبت سے زہرا لقب قرار پایا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو حضرت سیدہ فاطمہ زہراؑ بہت عزیز ہیں۔ حضور انور صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کا معمول شریف تھا کہ جب کبھی سفر پر تشریف لے جاتے یا مدینہ منورہ سے باہر کا ارادہ فرماتے تو سب سے آخرمیں اپنی شہزادیؑ کے گھر رونق افروز ہوتے اور جب مدینہ منورہ واپس تشریف لاتے تو مسجد میں نماز کی ادائیگی کے بعد سب سے پہلے سیدہ فاطمہ زہراؑکے گھر تشریف لے جاتے۔حضرت سیدہ فاطمہؑ اپنے تمام مشاغل حیات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اتباع فرماتیں۔ ام المومنین حضرت بی بی عائشہ صدیقہ ؓ  فرماتی ہیں کہ انھوں نے نشست و برخاست، عادات و خصائل، طرزگفتگو اور لب و لہجہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مشابہ حضرت سیدہ فاطمہؑ سے بڑ ھ کر کسی کو نہیں دیکھا۔ حضرت سیدہ فاطمہؑ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس حاضر ہوتیں تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم خصوصی شفقت فرماتے ۔پروفسیر سید محمد حسیب الدین حمیدی جانشین شہزادئہ امام علی موسیٰ رضاؑڈاکٹر سید محمد حمید الدین شرفی  ؒ نے آج صبح ۱۰ بجے ’’ایوان تاج العرفاء حمیدآباد‘‘ واقع شرفی چمن ،سبزی منڈی قدیم اور ۱۲ بجے دن جامع مسجد محبوب شاہی مالاکنٹہ روڈ روبرو معظم جاہی مارکٹ میں اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا (آئی ہرک) کے زیر اہتمام منعقدہ ’۱۶۰۹‘ویں تاریخ اسلام اجلاس کے دونوںسیشنوں میں شہزادی کونین خاتون جنت حضرت سیدہ بی بی فاطمہ زہرا  ؑ کی سیرت مقدسہ پر لکچر دئیے۔انھوں نے انگلش لکچر سیریز کے ضمن میں فضائل و خصائص شہزادیٔ کونین ؑ کے مقدس موضوع پراپنا ’ ۱۳۳۳‘ واں سلسلہ وار لکچر دیا۔ پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی نے سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی صاحبزادی حضرت سیدہ بی بی فاطمہؑ کی والدہ ماجدہ ام المومنین حضرت سیدہ خدیجہ ؑبنت خویلد تھیں۔حضرت سیدہ بی بی فاطمہؑ کے لئے مختلف پیام آئے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی ا س پارئہ جگر کا عقد نکاح شیر خدا حضرت سیدنا علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ سے سنہ ۲ ہجری میں کیا۔حضرت علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ کی اولاد میں حضرت سیدہ بی بی فاطمہؑ کے بطن مبارک سے حضرت سیدنا امام حسنؑ ، حضرت سیدنا امام حسینؑ اور حضرت سیدنا محسنؓ کے علاوہ تین صاحبزادیاں حضرت سیدہ زینبؑ ، حضرت سیدہ ام کلثومؓ اور حضرت سیدہ رقیہؓ  تولد ہوئیں۔حضرت محسن ؓ اور حضرت سیدہ رقیہؓ نے صغر سنی میں ہی وفات پائی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اپنی جگر گوشہ سیدہ فاطمہؑ کی اولاد سے بہت محبت تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ ’’فاطمہ جنتی عورتوں کی سردار ہیں‘‘۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ ’’فاطمہ میرے جسم کا ایک ٹکڑا ہے، جو اس کو ناراض کرے گا وہ مجھ کو ناراض کرے گا۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات شریف کے بعد اہل بیت اطہار میں سب سے پہلے حضرت بی بی سیدہ فاطمہؑ کا وصال ہوا۔آپ کو اپنی وفات کی خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے مل چکی تھی ۔ حضرت سیدنا علی کرم اللہ وجہہ نے سیدہ بی بی فاطمہؑ کی حیات میں دوسرا نکاح نہیں کیا۔ حضرت سیدہ فاطمہ زہراؑ تمام مکارم اخلاق اور فضائل و اوصاف سے متصف تھیں۔آپ متین الطبع، سنجیدہ، باوقار، بہت زیادہ عبادت میں مشغول رہنے اور سخت مجاہدات کی عادی تھیں۔ تقوی و پرہیز گاری میں یکتا، توکل و صبر و قناعت میں بے مثال، سخاوت و مہربانی، جود و عطا، لطف و کرم میں بے نظیر، وسیع القلب، کشادہ دست،غریبوں، محتاجوں ، یتیموں ، بیوائوں،مسکینوں، فقیروں اور ناداروں کی امدادفرمایا کرتیں، یتامیٰ و بیوگان کی سرپرست، شکرگزار، اطاعت الٰہی میں منہمک اوراپنے والد بزرگوار سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا بے حد ادب و احترام اور تعظیم و توقیر معمول تھا۔ذات اطہر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر جان نچھاور کیا کرتیں۔سر کار دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت شریف کے بعد آپ کو کسی نے ہنستا ہوا نہیں دیکھا۔۱۱ھ میں رات کے وقت آپ نے انتقال فرمایا تھا اور حضرت سیدنا علی کرم اللہ وجہہ نے آپ کی وصیت کے مطابق رات ہی کو سپرد لحد کیا۔ اجلاس کے اختتام سے قبل بارگاہ رسالت پناہی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں حضرت تاج العرفاءؒ کا عرض کردہ سلام پیش کیا گیا۔ ذکر جہری اور دعاے سلامتی پر آئی ہرک کا’۱۶۰۹‘ واں تاریخ اسلام اجلاس اختتام پذیر ہوا۔الحاج محمد یوسف حمیدی نے آخر میں شکریہ ادا کیا۔