Shahzadah Musa Raza

شہزادہ امام علی ابن موسیٰ رضا علیہ السلام 

   سید السادات ڈاکٹر سید محمد حمید الدین حسینی رضوی قادری شرفی رحمۃ اللّٰہ علیہ   

Shahzadah Imam Ali Musa Raza (Alaihissalaam)

Dr Syed Mohammed Hameeduddin Hussaini Razvi Quadri Sharafi (RahmathUllah Alaihi)

حضرت جعفر ابن ابی طالبؓ کا دربار نجاشی میں اسلام کی حقانیت پر پُر اثر خطاب
اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا ( آئی ہرک) کا ’’ ۱۶۲۴‘‘ واں تاریخ اسلام اجلاس۔پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی کا لکچر

قریش کے وفد نے جب شاہ حبش نجاشی سے مسلمانوں کو واپس مکہ لوٹانے کا مطالبہ کیا تو نجاشی نے مسلمانوں کو اپنے دربار میں طلب کیا۔دربار نجاشی میں حضرت جعفر ابن ابی طالبؓ نے اسلام پر نہایت موثر تقریر فرمائی اور دین اسلام کی حقانیت کے تمام پہلوئوں کی وضاحت کی۔ابن ہشام میں حضرت جعفر ابن ابی طالبؓ کی تقریر اس طرح ملتی ہے۔ حضرت جعفرابن ابی طالبؓ نے شاہ حبش کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’’اے بادشاہ! قریش کے (اکثر) لوگ اہل جاہلیت تھے، بتوں کی پرستش ان کا مذہب تھا۔ فواحش اور گناہ کا ارتکاب ان کا وطیرہ تھا۔ قطع رحم اور پڑوس کی حق تلفی اور ظلم و ستم کو قریش نے جائز قرار دے رکھا تھا۔ جو زبردست ہوتا وہ کمزور کو کھا جاتا۔ قریش ایسی ہی ذلیل حالت میں تھے کہ اللہ نے ہم پر کرم کیا اور اپنا رسولؐ ہم میں ارسال فرمایا جس کے نسب و شرف اور صدق و امانت اور پاک دامنی سے ہم خوب واقف ہیں۔ اس رسولؐ نے ہم کو توحید الٰہی اور معرفت کی طرف بلایا اور بت پرستی سے ہم کو منع کیا اور سچی بات اور ادائیے امانت اور صلہ رحم اور پڑوس کے حقوق اور گناہوں سے بچنے اور فواحش کے ترک کرنے کا حکم دیا اور یتیم کا حق تلف کرنے اور تہمت لگانے سے منع فرمایا اور اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت اور نماز، روزہ اور زکوٰۃ کو ہم پر فرض کیا ‘‘۔ حضرت جعفر ابن ابی طالبؓ نے تمام احکام اسلام نجاشی کو بتلائے اور کہا کہ ہم نے اس رسول(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تصدیق کی اور ان پر ایمان لائے اور ہم نے شرک و کفر کو چھوڑ دیا اور جس چیز کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حلال بتایا ہم نے حلال سمجھا اور جس کو حرام بتایا ہم نے حرام سمجھا۔ ہماری قوم نے اس دین حق کے اختیار کرنے پر ہم کو تکلیفیں پہنچائیں اور ہم کو بہت ستایا کہ ہم اس دین کو ترک کر دیں اور بتوں کی پرستش اختیار کریں اور جس طرح کہ وہ برے کاموں کو حلا ل سمجھتے ہیں ہم بھی حلال سمجھیں‘‘۔ ان حقائق کا اظہار پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی جانشین شہزادئہ امام علی موسیٰ رضاؑڈاکٹر سید محمد حمید الدین شرفی  ؒ نے آج صبح ۱۰ بجے ’’ایوان تاج العرفاء حمیدآباد‘‘ واقع شرفی چمن ،سبزی منڈی قدیم اور ۱۲ بجے دن جامع مسجد محبوب شاہی مالاکنٹہ روڈ روبرو معظم جاہی مارکٹ میںاسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا (آئی ہرک) کے زیر اہتمام منعقدہ ’۱۶۲۴‘ویں تاریخ اسلام اجلاس کے دونوں سیشنوں میں سیرت سید کونین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر لکچر میں کیا۔ پروفیسرسید محمد حسیب الدین حمیدی نے ایک آیت جلیلہ کا تفسیری اور ایک حدیث شریف کا تشریحی مطالعاتی مواد پیش کیا۔ انھوں نے انگلش لکچر سیریز کے ضمن میں بھی سیرت سید کونین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اسی موضوع پراپنا ’۱۳۴۷‘ واں سلسلہ وار لکچر دیا۔ پروفیسر حسیب الدین حمیدی نے سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ نجاشی نے حضرت جعفر ابن ابی طالبؓ سے پوچھا کہ جو کچھ تمہارے رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) پر نازل ہوا ہے اس میں سے کچھ پڑھو۔ چنانچہ حضرت جعفر ابن ابی طالبؓ نے سورہ مریم کی تلاوت شروع کی اور نجاشی نے اُس کو سن کر رونا شروع کر دیا۔ نجاشی کے دربار میں جس قدر علماء مذہب اس کے گرد بیٹھے تھے سب پر گریہ طاری ہوا اور اس قدر روئے کہ جو کتابیں ان کے آگے کھلی تھیں وہ سب تر ہو گئیں۔ جب حضرت جعفر ابن ابی طالبؓ تلاوت ختم کی تو نجاشی نے کہا کہ ’’بے شک یہ وہی کلام (جیسا) ہے جو (حضرت) عیسیٰ لائے تھے اور وہ ایک ہی مرکز نور سے نکلے ہیں‘‘۔ قریش نے دوسرے دن نجاشی سے کہا کہ مسلمان حضرت عیسیٰ بن مریم ؑ کی نسبت ایک سخت بات کہتے ہیں۔نجاشی نے مسلمانوں کو پھر طلب کیا تاکہ ان سے دریافت کر لیں۔ سب مہاجرین حبشہ فکر مند تھے کہ سچ بات کا نجاشی پر کیا اثر ہوگا اور وہ مسلمانوں سے کیا برتائو کرے گا۔ حضرت جعفر بن ابی طالبؓ نے دوسرے دن نجاشی کے دربار میں کہا کہ ’’ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) پر حضرت عیسیٰ ؑ کے متعلق یہی نازل ہوا ہے کہ وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول اور اس کا کلمہ ہیں جو اس نے حضرت مریم  ؑ کی طرف ڈالا جو کنواری اور بزرگ اور پارسا تھیں‘‘۔ یہ بات سن کر نجاشی نے زمین پر ہاتھ مارا اور ایک تنکا اٹھا کر کہا کہ’’ واللہ! تم نے جو کچھ بیان کیا ہے اُس سے حضرت عیسیٰ ؑاِس تنکے کے برابر بھی زیادہ نہیں‘‘۔ علماے نصاریٰ جو دربار نجاشی میں موجود تھے بہت ناراض ہوے لیکن نجاشی نے کسی کی پرواہ نہ کی اور اپنے ملازموں سے کہا کہ جو کچھ تحائف ان قریشیوں نے لائے تھے ان کو واپس کردیں۔ اس طرح قریش کا وفد نہایت ذلیل و خوار ہو کر نجاشی کے دربار سے نکلاگیا اور مسلمانوں نے پھر نہایت اطمنان سے زندگی بسر کی۔ اجلاس کے اختتام سے قبل بارگاہ رسالت پناہی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں حضرت تاج العرفاءؒ کا عرض کردہ سلام پیش کیا گیا۔ ذکر جہری اور دعاے سلامتی پر آئی ہرک کا’۱۶۲۴‘ واں تاریخ اسلام اجلاس اختتام پذیر ہوا۔ الحاج محمدیوسف حمیدی نے آخر میں شکریہ ادا کیا۔