Shahzadah Imam Ali Musa Raza (Alaihissalam)
شہزادہ امام علی موسیٰ رضا ؑ پیر طریقت بانیٔ آئی ہرک سید السادات حضرت ڈاکٹر سید محمد حمید الدین حسینی رضوی قادری شرفی رحمۃ اللہ علیہ کی پوری زندگی عشق رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے لبریز تھی۔ آپ ایک دینی، علمی اور حسینی سادات مشائخ گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اور خانقاہی ماحول میں پلے بڑھے تھے۔ شروع ہی سے تصوف سے علمی اور عملی واسطہ رہا اور تعلیم و تربیت کے ضمن میں بھی آپ پر خصوصی توجہات مبذول رہیں۔ آپ کے والد گرامی اور پیر و مرشد حضرت تاج العرفاء سید شاہ محمد سیف الدین حسینی رضوی قادری شرفی ؒنے راہ سلوک پر گامزن گیا اور طریقت کے آداب سکھائے، باطنی تزکیہ کیا اور خوب مشقتیں کروائیں، ذوق عبادت کو جلا دی، مجاہدات شاقہ کروائے اور اپنی خدمت بافیض میں برسوں رکھا، تربیت خاص فرمائی، حقائق و معارف سے آگہی بخشی پھر ایک خاص موقع پر خرقہ خلافت و سند اجازت سے سرفراز کیا ۔ عصری اور مروج نصابی تعلیم کے لئے حضرت ڈاکٹر سید محمد حمید الدین حسینی رضوی شرفی ؒ حیدرآباد کے سرکاری مدارس سے رجوع رہے اور جامعہ عثمانیہ سے بی اے اور ایم اے(لسانیات) تکمیل کیا اور گلبرگہ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی حاصل کیا۔دینی اور ملی خدمات کے ساتھ ساتھ آپ پیشہ تدریس سے وابستہ رہے اور ۱۹۸۴ء میں کالج آف لینگویجس حیدرآباد میں بحیثیت لکچرر منسلک ہوئے اور وہیںسے ریٹائر ہوئے۔آپ نے ۱۰ سال کی عمر سے حضرت تاج العرفاءؒ کے سامنے با اجازت درگاہ شرفی چمن کی ہفتہ واری، ماہانہ، سالانہ محافل میں وعظ و بیان شروع کر دیا اور ۱۴ سال کی عمر میں شرفی چمن سے باہر نکل کر وعظ کیا۔ تب سے یہ سلسلہ خطابت آپ کے پردہ فرمانے تک جاری رہا۔ آپ اسلوب بیان، سلاست زبان، قوت اظہار اور سامعین کی توجہ کے حصول کے اسرار و رموز سے واقف تھے۔ آپ نے سلسلہ خطابت کو بلاوقفہ جاری رکھنا ہی خدمت ملت کا موثر وسیلہ جانا اور اس ضمن میں ہفتہ واری خطابات کے علاوہ حیدرآباد اور مختلف شہروں کی بے شمار مسجدوں،خانقاہوں، میدانوں، آڈیٹوریمس میں منعقدہ ہونے والے اجتماعت میں ۵۸ سال شرف تخاطب حاصل کیا۔ ۱۹۹۱ء میں حضرت ڈاکٹر سید محمد حمید الدین حسینی رضوی شرفی ؒ تاریخ اسلام تحقیقاتی ادارہ قائم کیا جو اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا (آئی ہرک) سے موسوم ہے اور اس کا مقصداسلامی تاریخ کی موثر اور منور حقیقتوں سے عامۃ الناس کو آگاہ کرنا ہے۔ گزشتہ ۳۲ سال وہ ڈائریکٹر وہ آئی ہرک رہے اور رات دن اس کام کی وسعت کے لئے سرگرم عمل رہے۔ آپ نے ’’۱۴۶۵‘‘ ہفتہ واری اجلاسوں کی نگرانی کی جس میں سیرت طیبہؐ، احوال انبیاء ؑ،سیرت اہل بیت اطہار ؑ، سیرت صحابہ کرام ؓ اور خدمات اولیاء اللہ ؒ پر لکچرس دئے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صدقہ طفیل حضرت ڈاکٹر سید محمد حمید الدین شرفی ؒ کو جہاں نعمت خطابت سے سرفراز کیا وہیں پر انھیں بھر پور تحریری صلاحیتوں سے بھی مالا مال کیا۔آپ کاپہلا مضمون ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سیرت مبارکہ‘‘ پر تھا جو ۱۹۷۰ء میں لکھا تھا اور اس کے بعد سے قلم آپ کے پردہ فرمانے تک جاری رہا۔تفسیر قرآن مجید، تشریح حدیث شریف،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت طیبہؐ ، اسوئہ حسنہ ، عظمت و شان اقدس، اوصاف حمیدہ، اخلاق عظیمہ، رحمت عامہ کے مضامین کے علاوہ احوال انبیاء،سیرت اہل بیت اطہارو صحابہ کرام، سوانح اولیاء و صالحین امت کے موضوعات پر ہزاروں مضامین لکھے جن میں سے کچھ مضامین شہر کے مختلف اخبارات میں بہ پابندی شائع ہوتے تھے۔۱۹۹۷ میں حیدرآباد سے شائع ہونے والے روزنامہ سیاست کے ارباب مجاز نے جب مذہبی صفحہ کا اضافہ چاہا تو اس کام کی ذمہ داری سنبھالنے کے لئے حضرت ڈاکٹر سید محمد حمید الدین شرفی ؒ سے خواہش کی اور انھیں مذہبی صفحہ کا انچارچ بنایا اور اس سپلمنٹ کی تدوین، تزئین و ترتیب آپ کے حوالہ کی جسے آپ نے خدمت ملت اسلامیہ کا ایک اور موقع جانا اور مسلسل تیرہ سال اس ذمہ داری کو پورا کیا۔آپ کی تصانیف میں ارشاد نبویؐ کا مجموعہ ’’وما ینطق عن الھوا‘‘، سیرت النبی’’وداعیاً الا اللہ‘‘، مجموعہ نعت شریف ’’صلو ا علیہ‘‘، مجموعہ منقبت ’’ولا ھم یحزنون‘‘ کتاب کی شکل میں شائع ہو چکے ہیں اور بے حد مقبول ہیں۔آپ نے قرآن مجید کی تفسیر مکمل کیا اور وہ تفسیر ’’فرقان حمید‘‘ زیر طباعت ہے۔ جس قدر وسیع کام آپ نے مذہبی موضوعات پر کیا ہے اسی طرح آپ نے تدریسی، لسانی،تنقیدی، تحقیقی اور ادبی تاریخ پر سینکڑوں مضامین تحریر فرمایا۔آپ نے علم لسانیات پر ’’ہند آریائی اور اردو‘‘ تحقیقی مقالہ لکھا جو ۱۹۸۶ میں کتابی شکل میں شائع ہوا اور اس کے تحقیقی معیار، اہمیت اور پذیرائی کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ گلبرگہ یونیورسٹی، بنگلور یونیورسٹی اور عثمانیہ یونیورسٹی نے اس کتاب کو ایم اے (لینگویجس) کے نصاب میں داخل کیا۔ آپ بلند پایہ شاعر تھے اور اساتذہ سخن تھے اور اپنے کلام میں ’’سیفی‘‘ تخلص کرتے تھے۔ زیادہ رجحان حمد باری تعالیٰ ،نعت شریف اور منقبت اہل بیت و بزرگان دین رہتا لیکن تدریسی، تعلیمی اور ادبی ضروریات نے انہیں غزل اور نظم کہنے پر بھی مائل و متوجہ کیا۔ حضرت ڈاکٹر سید محمد حمید الدین حسینی رضوی شرفی ؒ کی اہلیہ محترمہ الحاجہ سیدہ احمد النساء صاحبہ ؒ کا نسبی تعلق حضرت سید شاہ لطیف لابالیؒ سے ہے۔ آپ کے ۳ فرزند پروفسیر سید محمد حسیب الدین حسینی رضوی حمیدی، مولانا مفتی سید محمد سیف الدین حسینی رضوی حاکم حمیدی اور ڈاکٹر سید محمد رضی الدین حسینی رضوی حسان حمیدی اور ۵ دختران ہیں۔