امام عالی مقام سیدنا امام حسینؑ کی شہادت تاریخ عالم کا منفرد اور غم ناک سانحہ
یقین و توکل، صبر و رضا اور جادئہ حق پر استقامت فیضان شہ کربلاؑ
آئی ہرک کا ’۳۴ ‘ واں سالانہ مرکزی جلسہ شہادت عظمیٰ امام حسین ؑ
پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی ، مولانا مفتی سید محمد سیف الدین حاکم حمیدی اور دیگر سادات کرام کے خطابات
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے حسن و جمال اقدس کا عکس اور سیرت طیبہ کا پر تو، سبط معظم ،سید الشہداء حضرت سیدنا امام حسین علیہ السلام کی صورت و سیرت میں نمایاں تھا جنھوں نے اپنی بے نظیر قربانیوں اور شہادت کے ذریعہ دنیا کو حق و باطل کا فرق سمجھا کر اقامت دین کی خاطر ہر طرح کے ایثار اور بقاے حق و صداقت کے عظیم مقصد کے لئے سب کچھ قربان کر دینے کا راستہ دکھایا۔ احقاق حق اور ابطال باطل، یقین و توکل، عزم و استقامت، جراء ت و ہمت، شجاعت و حوصلہ مندی اور صبر و رضا کا کوئی تذکرہ ہو وہ حضرت امام حسین ؑ اور واقعہ کربلا کے اولین حوالے کے بغیر نامکمل رہ جاتا ہے۔ حضرت امام حسین ؑ کی شہادت تاریخ عالم کا نہایت غم ناک اور حیرت انگیز سانحہ ہے ظلم و استبداد ، حق ناشناسی، خود غرضی، نفس پرستی، ناانصافی اور عدم مساوات کے نا پسندیدہ معمولات اور ضد، شرانگیزیوں اور ہٹ دھرمی کے اندہیروں میں رحم و مروت، حق پرستی، بے غرضی و اخلاص، عدل و انصاف اور ایثار و وفا کے چراغ جلاتے رہنا ہمیشہ ہی اہل حق و صداقت کا شعار رہا ہے۔ حضرت امام حسینؑ اور آپ کے اقرباء و انصار نے ان تمام محاسن اور خوبیوں کے اجالوں سے جادئہ عمل کو ہمیشہ کے لئے تابناک و منور بنا دیا۔ قیام حق و انصاف اور تدارک ظلم و استبداد کے لئے جد و جہد اور مخلصانہ کاوش کرنے والوں کے نزدیک عددی قوت یعنی قلت و کثرت کوئی معنی نہیں رکھتی، حصول مقصد کی اہمیت ہوتی ہے فتح و کامیابی مقصد حقہ کا پا جانا ہے ۔حضرت امام حسینؑ نے اس معرکہ حق و باطل میں جام شہادت نوش کر کے جو ظفر مندی پائی ہے اس کی حقیقت سے ہر صاحب نظر خوب واقف ہے اور قیامت تک جملہ حق پسندوں کو اس کا صحیح احساس رہے گا۔ معرکہ کربلا نے واضح کر دیا کہ کثرت تعداد ، سامان حرب اور جنگی طور و طریق اہل حق کے عزائم پر اثر انداز نہیں ہو سکتے۔ ۷۲ نفوس عالیہ کا ہزاروں اشقیاء کے مقابلہ میں حق پرستانہ استقامت کے ساتھ ڈٹے رہنا اور متاع جان کا لٹاتے جانا اس کی بہترین مثال ہے ۔سادات ذی احترام، مشائخ عظام، علمائے کرام او ر دانشوران ِگرامی نے ان خیالات کے اظہار کے ساتھ ۱۷؍جولائی م ۱۰؍ محرم الحرام کو جامع مسجد محبوب شاہی ، مالاکنٹہ روڈ، روبرو معظم جاہی مارکٹ میں اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا (آئی ہرک) اور بارگاہ تاج العرفاءؒ و بارگاہ شہزادئہ امام علی ابن موسیٰ رضا ڈاکٹر سید محمد حمید الدین حسینی رضوی قادری شرفی ؒ کے زیر اہتمام منعقدہ ’۳۴‘ ویں سالانہ مرکزی جلسہ شہادت عظمیٰ حضرت سیدنا امام حسین ؑ کے موقع پر سیرت حسینی ؑکے مختلف پہلؤوں پر شرف تخاطب حاصل کیا۔ جلسہ کا آغاز قرآن مجید کی تلاوت سے ہوا۔نعت خواں حضرات نے حمد باری تعالیٰ ، نعت شہنشاہ کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور سلام ومنقبت امام حسینؑ پیش کیں۔ مولانا ڈاکٹر سید محمد عبد المعز قادری شرفی سجادہ نشین حضرت مدنی شرفی ؒ نے اپنے خطاب میں کہا کہ حضرت امام حسینؑ اور خانوادئہ نبوت کے محترم افراداور آپ کے انصار کا مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ آنا، وہاں سے کربلا تک کا سفر محض اقامت دین، تحفظ شریعت مطہرہ اور ظلم و تشدد کے خلاف عملی جد و جہد دراصل حق پرستانہ کاوش اور ابطال باطل کے لئے بے نظیر اقدام تھا۔ سبط ؑرسول مقبولؐ نے اپنے شایان شان اقدام کیا، سچائی کی خاطر اپنی گردن کٹوانا منظور کر کے ثابت کر دیا کہ بڑے لوگوں کے کام بھی بڑی نوعیت کے ہوا کرتے ہیں۔انھوں نے بتایا کہ مسلمانوں کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا اسوئہ حسنہ اور حضرت امام حسین ؑ کی مبارک زندگی اور حق و صداقت پر مبنی تعلیمات پر عمل پیرائی لازمی اور موجب سعادت دارین ہے۔ حضرت امام حسین ؑ نے زیر خنجر فریضئہ نماز کی ادائیگی کے ذریعہ اطاعت الٰہی، اتباع رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، احترام احکام شریعت، عبادت کی اہمیت اور فضیلت کا عملی سبق دیا ہے۔ مولانا سیدشاہ محمد کاظم محی الدین قادری شرفی سجادہ نشین حضرت غوث شرفی ؒ نے اپنے خطاب میں کہا کہ اہل ایمان اپنے دینی تشخص کی برقراری کے لئے انفرادی اور اجتماعی صالحیت کے ذریعہ مخلصانہ سعی و عمل کریں، کتاب و سنت کی پیروی اور مثالی دینی معاشرہ کی تشکیل کے ذریعہ ہم دوسروں کو دین حق کی طرف متوجہ و مائل کر سکتے ہیں حضرت امام حسین ؑ کی شہادت کا یہی پیام ہے کہ اس کا ر عظیم یعنی اشاعت و تبلیغ اسلام کے لئے بڑی سے بڑی قربانی سے دریغ نہ کیا جائے۔ مولانا مفتی سید محمد سیف الدین حسینی رضوی قادری شرفی حاکم حمیدی سجادہ نشین حضرت تاج العرفاءؒ نے اپنے خطاب میں بتایا کہ آزمائش کے پانچ اسباب ہوا کرتے ہیں دیگر شہادتوں اور قربانیوں کے ضمن میں کسی ایک یا دو کے وجود کا پتہ چلتا ہے لیکن حضرت امام حسینؑ نے خوف، سفر، نقصانِ مال اور جان کے ساتھ اہل و عیال، احباب، اقرباء، ہر ایک کو پورے صبر و استقلال اور کامل جذبٔہ قربانی کے ساتھ نذر راہ حق کر دیا۔ اسلامی تقویم قربانیوں کے ساتھ عبارت ہے۔ معاشرہ میں جب بگاڑ آیا تو امام حسینؑ حوصلہ مندی کے ساتھ اس کا تدارک کیا۔ انھوں نے کہا کہ ذکر حسین ؑ میں بڑی حرارت اور حوصلہ بخش کیفیت ہے۔ ہر مصیبت و آزمائش کے وقت مسلمانوں کو واقعہ شہادت امام حسین ؑ، نئی توانائی، عزم و حوصلہ اور مشکلات میں صبر و استقامت، تسلیم و رضا کی دولت سے بہرہ مند کر دیتا ہے۔ صاحبزادہ سید محمد علی موسیٰ رضا حسینی رضوی حمیدی نے اپنے خطاب میں کہا کہ امربالمعروف اور نہی عن المنکر پر مبنی حضرت امام حسینؑ کی سرگرمیاں ہمیشہ اہل ایمان کو جادئہ حق پر گامزن رہنے کا حوصلہ بخشتی رہیں گی۔انھوں نے واقعہ مباہلہ اور واقعہ کربلا کا تقابلی جائزہ پیش کیا۔انھوں نے بتایا کہ حضرت امام حسینؑ کی شہادت اس لئے عظیم ترین ہے کہ ایک ایسے وقت جب کہ دین اور احکام دین کا تحفظ ناگزیر تھا حضرت امام حسینؑ نے بے مثال قربانیاں پیش کرکے ہمیشہ کے لئے عظمت دین و تحفظ شریعت کے لئے جان سے گذر جانے کا درس دیا ۔ مولانا حافظ سید محمد تاج الدین حسینی رضوی شرفی مرتضیٰ پاشاہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ حضرت امام حسینؓ کا کردار رہتی دنیا تک متلاشیان حق کے لئے مشعل راہ بنا ہوا رہے گا۔انھوں نے کہا کہ حجت و دلیل، برہان و ثبوت، علم و حکمت، بصارت و بصیرت، زبان و بیان، قوت و طاقت، حسن تکلم و خوبیٔ عمل، فکر و نظر، مال و زر، اولاد و اقرباء اور جملہ صلاحیتوں کے ساتھ اسلام کی حقانیت اور عظمت کی شہادت دینے اور اسکی خاطر ہر طرح کی قربانی پیش کرنے والوں میں حضرت امام حسین ؑ منفرد شان اور بلند مرتبت رکھتے ہیں اور حق پسندوں کے دل میں بستے ہیں۔آخر میں پروفیسر سید محمد حسیب الدین حسینی رضوی حمیدی جانشین شہزادئہ امام علی ابن موسیٰ رضا ؑ نے فدائیان جمال حبیب کبریا ؐ و شیفتگان کردار شبیریؑ سے شرف تخاطب حاصل کرتے ہوے کہا کہ حضرت امام حسینؑ کی شہادت عظمیٰ نے ہر طرح اسلام کی عظمت کا ثبوت فراہم کر دیا قیامت تک حضرت امام حسینؑ کی اس شہادت کو یاد رکھا جائیگا۔ عشق الٰہی کی سر شاری اور محبت رسولؐ اللہ کا کیف ہر امتحان و آزمائش میں اہل سعادت کو ثابت قدم رکھتا ہے۔ رضائے حق کی خاطر اپنا سب کچھ نذر حق کر دینا حضرت امام حسینؑ کے شایان شان تھا۔ حضرت امام حسینؑ نے دنیا کو دکھلا دیا کہ نظام مصطفویؐ کے تحفظ کے لئے وہ اور ان کے اہل بیت و انصار کے حوصلے اور قربانیاں کافی ہوگئیں۔ حضرت امام حسینؑ کی شہادت نے اپنا پورا اثر دکھایا ۶۱ھ کے بعد سے پھر کبھی اس دین پاک اور حقانی نظام کو بگاڑ نے کے لئے کسی نے خود غرضانہ جراء ت نہیں کی ۔ انھوں نے کہا کہ حضرت امام عالی مقام سیدنا امام حسین ؑ نے استبدادی طاقت کے آگے سپرڈالنے کے بجائے حق و صداقت کے لئے سر کٹا دینے کو ترجیح دی اور لوگوں کو رہتی دنیا تک دین اور ایمان کے لئے سب کچھ لٹا دینے اور راہ مولیٰ میں جراء ت کے ساتھ اقدام اور یقین فتح کی نوید کے ہمراہ حالات کا سامنا کرنے اور عدل و انصاف کے قیام کے لئے جان دے دینے کا سلیقہ سکھایا۔پروفیسر حسیب الدین حمیدی نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی امت کو ہدایت کا اجر، ایمان کا اجر، جہنم سے نجات اور جنت کی بشارت کا اجر اپنے محبوب ؐ کی اہلبیت ؑ کی محبت کو قرار دیا۔ نبیرہ گانِ شہزادئہؒ امام علی ابن موسیٰ رضاؑ صاحبزادہ سید محمد علی زین العابدین حمیدی، صاحبزادہ سید محمد علی باقر حمیدی، صاحبزادہ سید محمد علی موسیٰ کاظم حمیدی اور صاحبزادہ سید محمد علی جعفر صادق حمیدی نے بارگاہ امام حسین ؑمیں نثری نذرانہ عقیدت پیش کی۔پیر طریقت سید شاہ محمد رفیع الدین حسینی رضوی قادری شرفی مدظلہ سجادہ نشین حضرت علیم شرفی ؒ نے بحیثیت مہمان خصوصی شرکت فرمائی۔ ڈاکٹر سید محمد رضی الدین حسینی رضوی حسان حمیدی سجادہ نشین حضرت تاج العرفاءؒ نے خیر مقدم کیا۔ بارگاہ رسالت مآبؐ اور بارگاہ سید الشہداء ؑ میں سلام گذرانا گیا۔ ذکر جہری اور دعاے سلامتی پر آئی ہرک کا’۳۴‘واں سالانہ جلسہ شہادت عظمیٰ امام حسین ؑ کا اختتام عمل میں آیا۔الحاج محمد یوسف حمیدی صدر استقبالیہ نے آخر میں شرکاء کا شکریہ ادا کیا۔