حضرت ابو قتادہ انصاریؓ وصف شجاعت، علم و فضل اور جذبہ اخوت اسلامی سے مالامال تھے
اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا (آئی ہرک) کا ۱۴۹۱ واں تاریخ اسلام اجلاس
پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی کا لکچر
رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت عالیہ میں حاضر ہونے والے وفود میں وفد ثقیف بھی شامل تھا۔ وفد میں عروہ بن مسعود اور غیلان بن سلمہ شامل تھے۔ یہ دونوں طائف کے محاصرہ میں موجود نہ تھے۔ یہ لوگ اس وقت آئے جب رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم طائف سے مراجعت فرما ہو چکے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے عروہ بن مسعود کے قلب میں اسلام کی محبت پیدا کردی اور ان کے ارادوں کو بدل دیا مخالفت اسلام کے بجائے اب وہ تائید اسلام میں آگے بڑھے۔ یہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور مشرف بہ اسلام ہو گئے۔ انھوں نے رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم سے اپنی قوم میں واپس جانے کی اجازت طلب کی تا کہ وہ ان کی قوم کو اسلام کی دعوت دے سکیں۔ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ’’وہ لوگ تم سے جنگ کریں گے‘‘۔ عروہ بن مسعودؓ نے عرض کیا ’’یا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم ! میں اپنی قوم کے لوگوں میں ان کے اکلوتے بیٹوں سے زیادہ محبوب ہوں‘‘۔ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کے اجازت طلب کرنے پر کئی بار سکوت اختیار کیا لیکن بہت اصرار کرنے پر ارشاد فرمایا کہ ’’اگر تم چاہو تو جائو‘‘۔ حضرت عروہ بن مسعودؓ طائف پہنچے اور اپنے اسلام کو ظاہر کیا اور لوگوں کو دعوت حق دی۔ حضرت عروہ بن مسعودؓ نے جب صبح فجر کی اذاں کہی تب ایک شخص نے ان پر تیر چلایا جس سے وہ شدید زخمی ہو گئے اور کچھ دیر بعد جام شہادت نوش کیا۔ انتقال سے قبل انھوں نے اپنے قاتل کو معاف کر دیا اور اپنے حامیوں کو انتقام سے روک دیا۔ رسول اللّٰہ صلی اللہاللّٰہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کی وفات پر ارشاد فرمایا کہ ’’عروہ بن مسعود کی مثال صاحب یاسین کی سی ہے جنھوں نے اپنی قوم کو اللّٰہ کی طرف بلایا تو قوم کے لوگوں نے انھیں شہید کر دیا‘‘۔آج صبح ۱۰ بجے ’’ایوان تاج العرفاء حمیدآباد‘‘ واقع شرفی چمن ،سبزی منڈی قدیم میںاسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا (آئی ہرک) کے زیر اہتمام منعقدہ ’۱۴۹۱‘ویں تاریخ اسلام اجلاس کے پہلے سیشن میں سیرت طیبہ کے تسلسل میں ’’وفود کی آمد‘‘ کے ضمن میں ان حقائق کا اظہار پروفسیر سید محمد حسیب الدین حمیدی جانشین شہزادئہ امام علی موسیٰ رضاؑڈاکٹر سید محمد حمید الدین شرفی ؒ نے کیا۔ پروفیسرسید محمد حسیب الدین حمیدی نے ایک آیت جلیلہ کا تفسیری، ایک حدیث شریف کا تشریحی اور ایک فقہی مسئلہ کا توضیحی مطالعاتی مواد پیش کیا۔ انھوں نے انگلش لکچر سیریز کے ضمن میں حیات طیبہؐ کے مقدس موضوع پراپنا ’۱۲۱۵‘ واں سلسلہ وار لکچر دیا۔ بعدہٗ ۱۲ بجے دن جامع مسجد محبوب شاہی مالاکنٹہ روڈ روبرو معظم جاہی مارکٹ میں منعقدہ دوسرے سیشن میں ایک مہاجر ایک انصاری سلسلہ کے تحت انھوں نے صحابی رسول مقبولؐ حضرت ابو قتادہ انصاری ؓ کے احوال شریف پیش کئے۔اپنے لکچر کے دوسرے حصہ میں پروفیسر حسیب الدین حمیدی نے بتایا کہ حضرت ابو قتادہؓ علم وفضل، جراء ت و بسالت ہر لحاظ سے اپنا خاص تشخص رکھتے تھے ۔ وہ غزوہ غابہ کے بطل و غازی تھے ان کے کارنامے پر دربار رسالت پناہی صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم سے انہیں بہترین سوار کا خطاب عطا ہوا۔ غزوہ حنین کے سخت اور آزمائشی مراحل میں حضرت ابو قتادہؓ نے استقامت عزم و ثبات اور شجاعت و دلیری کا بھر پور مظاہرہ کیا ۔ نہایت پریشان کن حالات اور ہنگامی صورت میں بھی ان کے استقلال اور عزم و حوصلہ میں رمق برابر کمی نہ آئی تھی۔ حضرت ابو قتادہؓ کی اسی بہادری کے باعث انہوں نے کئی معرکوں میں نا قابل فراموش کارنامے انجام دئیے۔ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم نے انہیں کئی معرکوں میں ذمہ دار مناصب دئیے اور نہایت اہم مہمات کی سربراہی عطا فرمائی تھی۔ اس وصف شجاعت کے ساتھ علوم قرآن و حدیث سے ان کا لگائو انہیں چنندہ علم دوست اصحاب میں شامل کرتا ہے۔وہ ممتاز مقربان بارگاہ رسالت پناہی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم میں شمار ہوتے تھے۔پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی نے کہا کہ حضرت ابو قتادہؓ کا اصلی نام حارث تھا ۔ ان کے والد ربعی ابن بلدمہ تھے جو خزرجی قبیلہ کے ممتازو معزز فردتھے۔نہایت ہی سوجھ بوجھ کی عمر میں انہیں حبیب کبریا صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم کے دیدار اور شرف صحبت اقدس سے نگاہوں کو منور اور دل کو آباد رکھنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ علوم دین سے قلبی مناسبت کے باعث آپ اہل علم صحابہ میںمنفرد حیثیت رکھتے تھے۔ انہیں رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم سے از حد محبت تھی۔ ہمیشہ حضور اقدس صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت اور تعمیل ارشاد کے لئے مستعد و مشتاق رہا کرتے تھے۔عہد نبوی صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد انھوں نے مرتدین کے استیصال کی مہم میں حصہ لیا اور عہد مرتضویؓ میں جمل و صفین کے واقعات میں بھی شریک رہے۔ امیر المومنین حضرت سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللّٰہ وجہہ نے اپنے دور خلافت میں انہیں مکہ مکرمہ کا امیر بنایا تھا۔ حضرت ابو قتادہؓ بہ اختلاف روایت ۳۸ھ یا ۴۰ھ میں وفات پائی۔ انہیں چار فرزند تھے۔ حضرت ابو قتادہؓ اسوئہ حسنہ کا جیتا جاگتا نمونہ تھے۔اجلاس کے اختتام سے قبل بارگاہ رسالت پناہی صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم میں حضرت تاج العرفاءؒ کا عرض کردہ سلام پیش کیا گیا۔ ذکر جہری اور دعاے سلامتی پر آئی ہرک کا’۱۴۹۱‘ واں تاریخ اسلام اجلاس اختتام پذیر ہوا۔الحاج محمد یوسف حمیدی نے آخر میں شکریہ ادا کیا۔