حضرت صہیب رومیؓ   کو سبقت اسلام اور غزوات میں شرکت کا اعزاز

اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا ( آئی ہرک) کا ’ ۱۴۹۰ ‘ واں تاریخ اسلام اجلاس
پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی کا لکچر

    رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت عالیہ میں حاضر ہونے والے وفود میں ایک وفد ہلال بن عامر کا تھا۔ وفد میں حاضر ہونے والوں میں عبد عوف، قبیصہ بن مخارق اور زیاد بن عبد اللہ کا نام ملتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے عبد عوف کا نام عبد اللہ رکھا اور ان سے ارشاد فرمایا کہ ’’تم عبد اللہ ہو‘‘۔ زیاد بن عبد اللہ حضرت ام المومنین بی بی میمونہؓ کے بھانجے تھے۔ ا س روز نماز ظہر کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کو اپنے ساتھ رکھا اور نماز کے بعد اپنے قریب بیٹھنے کا شرف عطا کیا اور انھیں دعائوں سے نوازا اور اپنا دست مبارک ان کے سر پر پھیرا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنا دست اقدس ان کے سر سے ناک کے کنارے تک اتارا، جس کا یہ اثر ہوا کہ بنی ہلال کہتے تھے کہ زیاد بن عبد اللہ ؓ کے چہرے پر ہم لوگ برابر برکت کا مشاہدہ کرتے تھے۔ وفد میں شریک قبیصہ بن مخارق نے بارگاہ رسالت پناہی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں اپنے قرض کے بارے میں عرض کیا جو انھوں نے اپنی قوم کے ایک شخص کی طرف سے دیت ادا کرنے اور اس کی جان بچانے کی غرض سے لیا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کی عرضی سماعت فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ تم ہمارے ہاں کچھ دن رکے رہو شاید کوئی انتظام ہو جائے۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ’’کسی سے سوال کرنا ان تین باتوں کے سوا کسی جگہ حلال نہیں ہے۔ (۱) قرض کا بوجھ اٹھا رکھا ہے (اور قرض ادا کرنے کی نیت سے سوال کرے) (۲)کسی کو کوئی حادثہ پہنچا ہو اور اس کا مال تباہ ہو گیا ہو (۳)جسے فاقہ پہنچا ہے اور تین عاقل آدمی جو اس کی قوم کے ہوں گواہی دیں۔ ان خیالات کا اظہار پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی جانشین شہزادہ  امام علی ابن موسیٰ رضاؑ ڈاکٹر سید محمد حمید الدین حسینی رضوی قادری شرفی ؒنے حمیدیہ شرفی چمن میں اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا (آئی ہرک) کے ۱۴۹۰  ویں تاریخ اسلام اجلاس کے پہلے سیشن میں کیا۔ بعدہٗ   جامع مسجد محبوب شاہی مالاکنٹہ روڈ روبرو معظم جاہی مارکٹ میں منعقدہ دوسرے سیشن میں انھوں نے انگلش لکچر سیریز کے ضمن میں حیات طیبہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے مقدس موضوع پراپنا ’۱۲۱۴‘ واں سلسلہ وار لکچر دیا۔ ایک مہاجر ایک انصاری سلسلہ کے تحت انھوں نے صحابی رسول مقبولؐ حضرت صہیب رومی ؓ کے احوال شریف پیش کئے۔ پروفیسر حسیب الدین حمیدی نے بتایا کہ حضرت صہیبؓ کا رومی کہلانا محض اس وجہ سے ہے کہ اہل روم انہیں ان کے بچپن میں اٹھا کر لے گئے تھے اور اپنے پاس قید کر رکھا تھا۔ ان کی روم ہی میں نشو و نما اور پرورش ہوئی تھی۔ حضرت صہیبؓ کے والد اور چچا دونوں کسریٰ (شاہ فارس) کی طرف سے مقام ابلہ میں حکمران تھے۔ رومیوں اور فارسیوں کی آپسی دشمنی کے نتیجہ میں رومیوں نے ایک موقع پر ان کے مکانات پر شب خون مارا اور صہیب جو اس وقت بہت کمسن تھے، اپنے ساتھ اٹھا کر روم لے گئے۔ وہ عرصہ دراز تک روم میں رہے اس وجہ سے ان کی زبان میں عجمی لہجہ نمایاں تھا۔  قبیلہ کلب والوں نے حضرت صہیب کو روم والوں سے خرید لیا اور اپنے ساتھ مکہ مکرمہ لے آئے ۔ یہاں پر عبد اللہ بن جدعان نے انہیں بنو کلب سے مول لیا اور آزاد کر دیا تاہم حضرت صہیب تادم زیست انہیں کے ساتھ رہے۔ ایک اور روایت یہ ملتی ہے کہ روم میں سن شعور کو پہنچنے کے بعد حضرت صہیبؓ نے وہاں اجنبیت کا شدت سے احساس کیا اور آخر کار خود ہی روم چھوڑ کر نکل پڑے اور مکہ مکرمہ چلے آئے اور عبد اللہ بن جدعان سے معاہدہ دوستی کی۔ اس محالفت کے زیر اثر آپ ساری زندگی ان کے ساتھ ہی رہے۔حضرت عمار بن یاسرؓ اور حضرت صہیبؓ دونوں نے ایک ہی روز مشرف بہ اسلام ہونے کی سعادت پائی۔ حضرت صہیبؓ مکہ کے کمزور لوگوں میں سے تھے اسی وجہ سے اسلام قبول کرنے کے بعد وہ اہل قریش کے جبر و تشدد کا نشانہ بنتے رہے۔ انھیں راہ خدا میں بہت تکلیف دی جاتی تھی وہ ہر زحمت برداشت کرتے رہے لیکن جادہ حق و صداقت پر پوری مضبوطی کے ساتھ قائم رہے اور ساری دنیا کو ایمان پر استقامت کے مثالی نمونہ سے متاثر کیا۔ حضرت صہیبؓ رومی مکہ مکرمہ سے ہجرت کرنے والے آخری لوگوں میں تھے ۔ وہ حضرت سیدنا علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ کے ساتھ یا کچھ پہلے اس وقت آئے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم قبا میں تشریف فرما تھے۔ وہ جب ہجرت کر رہے تھے تو مشرکین قریش نے ان کا تعاقب کیا تھا لیکن حضرت صہیبؓ نے ان سے کہہ دیا کہ تم میری تیراندازی سے واقف ہو۔ اگر میرے پیچھے آئوگے تو جانی نقصان اٹھائو گے البتہ اگر مال چاہتے ہو تو میں اس کا پتہ بتا دوں گا۔ چنانچہ آپ نے اپنے مال کی جگہ بتا دی اور قریش واپس لوٹ گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت صہیبؓ سے اس بارے میں ارشاد فرمایا کہ ’’اے ابو یحییٰ! تمہاری تجارت بہت اچھی رہی‘‘۔ پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی نے بتایا کہ حضرت صہیبؓ کے والد کا نام سنان اور دادا مالک بن خالد تھے جو کعب بن لبید کی اولاد سے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کی کنیت ابو یحییٰ تجویذ فرمائی تھی وہ اسی سے مخاطب کئے جاتے تھے۔ ہجرت کے بعد ان کی مواخاۃ حضرت حارث بن صمہؓ کے ساتھ ہوئی۔ حضرت صہیبؓ نے بدر و احد کے بشمول تمام غزوات میں شرکت کا اعزاز پایا۔ حضرت صہیب  ؓ فضل و کمال اور علو مرتبت کے لحاظ سے ممتاز تھے، حسن خلق میں نمایاں تھے اور بارگاہ رسالت پناہی صلی اللہ علیہ و آ لہ وسلم میں تقرب حاصل تھا۔ جماعت صحابہ میں بھی آپ بہت مقبول تھے۔ حضرت عمر بن خطابؓ نے وصیت کی تھی کہ ان کی نماز جنازہ حضرت صہیبؓ پڑھائیں۔ حضرت صہیبؓ ۳۸ھ میں بہ عمر ۷۰ سال وفات پائی اور مدینہ منورہ میں مدفون ہوئے۔اجلاس کے اختتام سے قبل بارگاہ رسالت پناہی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں حضرت تاج العرفاءؒ کا عرض کردہ سلام پیش کیا گیا۔ ذکر جہری اور دعاے سلامتی پر آئی ہرک کا’۱۴۹۰‘ واں تاریخ اسلام اجلاس اختتام پذیر ہوا۔الحاج محمد یوسف حمیدی نے آخر میں شکریہ ادا کیا۔