فکری و عملی جاہلیت کی مسلسل نشاندہی کرنے کے سبب قریش حضور اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مقابل صف آراء
اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا ( آئی ہرک) کا ’’۱۶۰۷‘‘ واں تاریخ اسلام اجلاس۔پروفیسرسید محمدحسیب الدین حمیدی کا لکچر
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بعثت سے پہلے کے دور کو ’’زمانہ جاہلیت‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس کی وجہہ یہ نہیں کہ عرب جنگلی قبائل کی طرح زندگی گزارتے ہوں۔ بلکہ اس کو اس لئے جاہلیت کا دور کہا جاتا ہے کہ اس دور میں عربوں میں بری عادتوں کو اچھا تصور کیا جانے لگا۔ مثال کے طور پر بد اخلاقی، بت پرستی، شراب خوری، لڑکیوں کو زندہ درگور کرنا، ’’ظلم کو بہادری‘‘ اور ’’عفو و درگذر کرنے کو بزدلی‘‘ سمجھنا وغیرہ جیسے قبیح کام عربوں میں تہذیب کی شکل اختیار کر چکے تھے۔ ہر قبیح رسم کو شرافت سمجھنا سب قبیلوں کا مزاج بن گیا تھا سوائے بنو ہاشم اور بنو عبد المطلب کے۔ خانہ کعبہ جسے حضرت ابراھیم خلیل اللہ علیہ السلام نے اللہ وحدہٗ لاشریک کی عبادت کے لئے بنایا تھا ، اسے انھوں نے بت خانہ کی شکل دے دی تھی۔ اس میں انھوں نے ۳۶۰ بت رکھے تھے تاکہ ہر دن ایک بت کی پرستش ہو۔ عرب کے تمام قبائل میں بنو ہاشم ہی ایسا قبیلہ تھا جو اس لعنت سے دور رہا۔ ان کے قبیلہ کا نہ کوئی بت تھا اور نہ ہی اس کی پرستش۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا اسی خاندان میں تولد ہونا آپ کا مکمل پاک و معصوم ہونے پر دلالت کرتا ہے۔مولیٰ تعالیٰ نے آپ سے اور آپ کے اجداد سے ہر ناپاکی اور جہالت کو دور رکھا۔ ان حقائق کا اظہار پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی جانشین شہزادئہ امام علی موسیٰ رضاؑڈاکٹر سید محمد حمید الدین شرفی ؒ نے آج صبح ۱۰ بجے ’’ایوان تاج العرفاء حمیدآباد‘‘ واقع شرفی چمن ،سبزی منڈی قدیم اور ۱۲ بجے دن جامع مسجد محبوب شاہی مالاکنٹہ روڈ روبرو معظم جاہی مارکٹ میںاسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا (آئی ہرک) کے زیر اہتمام منعقدہ ’۱۶۰۷‘ویں تاریخ اسلام اجلاس میں سیرت سید کونین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر لکچرمیں کیا۔ پروفیسرسید محمد حسیب الدین حمیدی نے ایک آیت جلیلہ کا تفسیری ، ایک حدیث شریف کا تشریحی اور ایک فقہی مسئلہ کا توضیحی مطالعاتی مواد بھی پیش کیا۔انھوں نے انگلش لکچر سیریز کے ضمن میں حیات طیبہؐ ہی کے مقدس موضوع پراپنا ’۱۳۳۱‘ واں سلسلہ وار لکچر دیا۔پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی نے سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ کچھ لوگ ستارہ پرستی، کچھ یہود اور نصرانی، کچھ مجوس تھے مگر سب کے سب شرک کی لعنت میں مبتلا تھے۔ جو حال عربوں کا تھا وہی حال ساری دنیا کا تھا۔ اس عالم ظلمٰت میں حضور پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم دنیا کے لئے مشعل نور ایمان لے کر کھڑے ہوئے۔آپ کا پیغام ساری انسانیت کے لئے تھا۔ بقول علامہ سید علی نقیؒ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنے ’’پیغام میں شروع ہی سے جب خطاب کیا تو ’’ایھا العرب‘‘ نہیں کہا بلکہ ’’ایھا الناس‘‘ کہا ’’اے انسانو!‘‘ بلکہ پہلی ہی وحی میں خالق نے ان کی زبانی جو اپنا احسان یاد دلایا اس میں عرب کا نام نہیں لیا بلکہ انسان کا نام لیا۔ اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ ـ خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ ـ اِقْرَاْ وَ رَبُّکَ الْاَکْرَمُ ـ الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ ـ عَلَّمَ الْانْسَانَ مَالَمْ یَعْلَمْ ـ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حکم الٰہی لوگوں کو پہنچاتے تو بہت تکلیفوں کا سامنا کرنا پڑتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دعوت کا اثر تدریجی طور پر بڑھنے لگا۔ لوگ آہستہ آہستہ حلقہ بگوش اسلام ہونے لگے۔ پیغام توحید و رسالت کے اعلان و اظہار کے ساتھ ساتھ شرک و بت پرستی کے خلاف حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پر اثر تعلیمات نے سعید مزاج لوگوں کے اذہان و افکار میں انقلاب بپا کرنا شروع کیا تو کفار قریش بھڑک اٹھے اور ان کے اکابرین کو اپنا تفوق، اقتدار، اثر و دبدبہ خطرے میں نظر آنے لگا۔ ان کے سامنے دن بہ دن اسلام کا فروغ ہو رہا تھا ۔یہ بات ان کے لئے ناقابل برداشت بن گئی۔ آخر کار تمام قریشی سرداروں نے متفقہ طور پر اسلام دشمنی، مخالفت دین اور اسلام قبول کرنے پر دست دراز کرنا شروع کر دیا۔ ادھر حضور اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کی شرارتوں کی پرواہ کئے بغیر اپنا مقدس کام جاری رکھا۔ بتوں کی مذمت اور شرک کی تباہ کن خرابیوں کے اظہار و نیز فکری و عملی جاہلیت کی مسلسل نشاندہی کے سبب قریش حضور اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مقابل صف آراء ہو گئے۔اجلاس کے اختتام سے قبل بارگاہ رسالت پناہی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں سلام حضرت تاج العرفاءؒ پیش کیا گیا۔ ذکر جہری اور دعاے سلامتی پر آئی ہرک کا’’۱۶۰۷‘‘ واں تاریخ اسلام اجلاس تکمیل پذیر ہوا۔ الحاج محمد یوسف حمیدی نے آخر میں شکریہ ادا کیا۔