Shahzadah Musa Raza

شہزادہ امام علی ابن موسیٰ رضا علیہ السلام 

   سید السادات ڈاکٹر سید محمد حمید الدین حسینی رضوی قادری شرفی رحمۃ اللّٰہ علیہ   

Shahzadah Imam Ali Musa Raza (Alaihissalaam)

Dr Syed Mohammed Hameeduddin Hussaini Razvi Quadri Sharafi (RahmathUllah Alaihi)

 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جب اپنا نسب شریف بیان فرماتے تو حضرت معد بن عدنانؓ سے تجاوز نہیں فرماتے۔

اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا ( آئی ہرک) کا ’’۱۵۶۵‘‘ واں تاریخ اسلام اجلاس۔پروفیسرسید محمدحسیب الدین حمیدی کا لکچر

 حیدرآباد ۔۱۸؍فبروری( پریس نوٹ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد مبارکہ ہے کہ ’’فرزندان نوح ؑ میں عربوں کے ابو الاباء ’’سام‘‘، حبشیوں کے ’’حام‘‘ اور رومیوں کے ’’یافث‘‘ ہیں۔ حضرت سام کی اولاد کا سلسلہ حام اور یافث کے مقابلہ میں زیادہ وسیع اور دراز رہا۔حضرت سام کی اولادعربی بولنے کے باعث تمام اقوام میں ممتاز تھی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جد اعلیٰ حضرت اسماعیل ؑ کے بارہ فرزند تھے جن میں حضرت نابت بڑے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا نسب مبارکہ حضرت عدنان تک اس طرح پہنچتا ہے۔ ’’حضرت محمد(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) بن عبد اللہ ؑ بن عبد المطلبؓ( شیبہ) بن ہاشمؓ (عمرو) بن عبد منافؓ(مغیرہ) بن قصیؓ(زید) بن کلابؓ بن مرہؓبن کعبؓ بن لویٔؓ بن غالبؓ بن فہرؓ بن مالکؓ بن نضرؓ بن کنانہؓ بن خزیمہؓ بن مدرکہؓ بن الیاسؓ بن مضرؓ بن نزارؓ بن معدؓ بن عدنانؓ علیھم السلام۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جب اپنا نسب شریف بیان فرماتے تو حضرت معد بن عدنانؓ سے تجاوز نہیں فرماتے۔ اس جگہ ٹھہر جاتے تھے اور فرماتے کہ ’’نسب میں لوگوں نے جھوٹ ملا رکھا ہے کیونکہ عدنان سے اسماعیل ؑ تک اور اسماعیل ؑ سے آدم ؑ تک بہت اختلاف ہے‘‘۔حضرت اسماعیل ؑ کعبۃ اللہ کے متولی تھے۔ ان کے بعدحضرت نابت متولی ہوے لیکن آپ کے بعدکعبہ شریف کی تولیت مختلف خاندانوں میں چلی گئی۔ عرصہ دراز کے بعد بنو اسماعیل ؑ نے کعبہ کی تولیت پھر حاصل کرلی۔ کعبہ کے متولیوں میں حضرت قصیؓ بہت نامور ہوئے۔ وہ نہ صرف کعبہ کے متولی ہوئے بلکہ عربوں کو متحد بھی کیا۔ حضرت قصی ؓ کی اولادامجادمیںامرائے مکہ حضرت عبدمناف،حضرت ہاشم اور حضوراقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دادا حضرت عبد المطلب تھے۔پروفسیر سید محمد حسیب الدین حمیدی جانشین شہزادئہ امام علی موسیٰ رضاؑڈاکٹر سید محمد حمید الدین شرفی ؒ نے آج صبح ۱۰ بجے ’’ایوان تاج العرفاء حمیدآباد‘‘ واقع شرفی چمن ،سبزی منڈی قدیم میںاسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا (آئی ہرک) کے زیر اہتمام منعقدہ ’۱۵۶۵‘ویں تاریخ اسلام اجلاس کے پہلے سیشن میں سیرت سید کونین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم (اجدادمحترمؓ) پر لکچرمیں ان حقائق کا اظہار کیا۔ٗ ۱۲ بجے دن جامع مسجد محبوب شاہی مالاکنٹہ روڈ روبرو معظم جاہی مارکٹ میں منعقدہ دوسرے سیشن میں پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی نے انگلش لکچر سیریز کے ضمن میں حیات طیبہؐ کے مقدس موضوع پراپنا ’۱۲۸۹‘ واں سلسلہ وار لکچر دیا اور بانی آئی ہرک شہزادہ امام علی ابن موسیٰ رضاؑڈاکٹر سید محمد حمید الدین حسینی رضوی قادری شرفی ؒ کے دینی، علمی، ملی اور خانقاہی خدمات پیش کئیے۔اپنے لکچر کے دوسرے حصہ میں پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی نے بتایا کہ شہزادئہ امام علی موسیٰ رضا ؑ پیر طریقت بانیٔ آئی ہرک حضرت ڈاکٹر سید محمد حمید الدین حسینی رضوی قادری شرفی ؒایک دینی، علمی اور حسینی سادات مشائخ گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اور خانقاہی ماحول میں پلے بڑھے تھے۔ شروع ہی سے تصوف سے علمی اور عملی واسطہ رہا اور تعلیم و تربیت کے ضمن میں بھی آپ پر خصوصی توجہات مبذول رہیں۔ آپ کے والد گرامی اور پیر و مرشد حضرت تاج العرفاء سید شاہ محمد سیف الدین حسینی رضوی قادری شرفی ؒنے راہ سلوک پر گامزن کیا اور طریقت کے آداب سکھائے، باطنی تزکیہ کیا اور خوب مشقتیں کروائیں، ذوق عبادت کو جلا دی، مجاہدات شاقہ کروائے اور اپنی خدمت بافیض میں برسوں رکھا، تربیت خاص فرمائی، حقائق و معارف سے آگہی بخشی پھر ایک خاص موقع پر خرقہ خلافت و سند اجازت سے سرفراز کیا ۔ عصری اور مروج نصابی تعلیم کے لئے حضرت ڈاکٹر سید محمد حمید الدین حسینی رضوی شرفی ؒ حیدرآباد کے سرکاری مدارس سے رجوع رہے اور جامعہ عثمانیہ سے بی اے اور ایم اے تکمیل کیا اور گلبرگہ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی حاصل کیا۔دینی اور ملی خدمات کے ساتھ ساتھ آپ پیشہ تدریس سے وابستہ رہے اور ۱۹۸۴ء میں کالج آف لینگویجس حیدرآباد میں بحیثیت لکچرر منسلک ہوئے اور وہیںسے ریٹائر ہوئے۔آپ نے ۱۰ سال کی عمر سے درگاہ شرفی چمن کی ہفتہ واری، ماہانہ، سالانہ محافل میں وعظ و بیان شروع کیا اور ۱۴ سال کی عمر میں شرفی چمن سے باہر نکل کر وعظ کیا۔ تب سے یہ سلسلہ خطابت آپ کے پردہ فرمانے تک جاری رہا۔ آپ اسلوب بیان، سلاست زبان، قوت اظہار اور سامعین کی توجہ کے حصول کے اسرار و رموز سے واقف تھے۔ آپ نے سلسلہ خطابت کو بلاوقفہ جاری رکھنا ہی خدمت ملت کا موثر وسیلہ جانا اور اس ضمن میں ہفتہ واری خطابات کے علاوہ حیدرآباد اور مختلف شہروں کی بے شمار مسجدوں،خانقاہوں، میدانوں، آڈیٹوریمس میں منعقدہ ہونے والے اجتماعت میں ۵۸ سال شرف تخاطب حاصل کیا۔ ۱۹۹۱ء میں حضرت ڈاکٹر سید محمد حمید الدین حسینی رضوی شرفی ؒ تاریخ اسلام تحقیقاتی ادارہ قائم کیا جو اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا (آئی ہرک) سے موسوم ہے اور اس کا مقصداسلامی تاریخ کی موثر اور منور حقیقتوں سے عامۃ الناس کو آگاہ کرنا ہے۔ ۳۲ سال وہ ڈائریکٹر آئی ہرک رہے اور رات دن اس کام کی وسعت کے لئے سرگرم عمل رہے۔ آپ نے ’’۱۴۶۵‘‘ ہفتہ واری اجلاسوں کی نگرانی کی جس میں سیرت طیبہؐ، احوال انبیاء ؑ،سیرت اہل بیت اطہار ؑ، سیرت صحابہ کرام ؓ اور خدمات اولیاء اللہ ؒ پر لکچرز دئے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صدقہ طفیل حضرت ڈاکٹر سید محمد حمید الدین شرفی ؒ کو جہاں نعمت خطابت سے سرفراز کیا وہیں پر انھیں بھر پور تحریری صلاحیتوں سے بھی مالا مال کیا۔آپ کاپہلا مضمون ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سیرت مبارکہ‘‘ پر تھا جو ۱۹۷۰ء میں لکھا گیاتھا اور اس کے بعد سے قلم آپ کے پردہ فرمانے تک جاری رہا۔تفسیر قرآن مجید، تشریح حدیث شریف،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت طیبہؐ ، اسوئہ حسنہ ، عظمت و شان اقدس، اوصاف حمیدہ، اخلاق عظیمہ، رحمت عامہ کے مضامین کے علاوہ احوال انبیاء،سیرت اہل بیت اطہارو صحابہ کرام، سوانح اولیاء و صالحین امت کے موضوعات پر ہزاروں مضامین لکھے جن میں سے کچھ مضامین شہر کے مختلف اخبارات میں بہ پابندی شائع ہوتے تھے۔آپ کی تصانیف میں ارشاد نبویؐ کا مجموعہ ’’وما ینطق عن الھوا‘‘، سیرت النبی’’وداعیاً الا اللہ‘‘، مجموعہ نعت شریف ’’صلو ا علیہ‘‘، مجموعہ منقبت ’’ولا ھم یحزنون‘‘ کتاب کی شکل میں شائع ہو چکے ہیں اور بے حد مقبول ہیں۔آپ نے قرآن مجید کی تفسیر ۲۰ برسوں میںمکمل کی اور وہ مخطوطہ تفسیر ’’فرقان حمید‘‘ www.shahzadahmusaraza.com/furqan-e-hameed پر دستیاب ہے جب کہ اس کی کتابی شکل زیر طباعت ہے۔ جس قدر وسیع کام آپ نے مذہبی موضوعات پر کیا ہے اسی طرح آپ نے تدریسی، لسانی،تنقیدی، تحقیقی اور ادبی تاریخ پر سینکڑوں مضامین تحریر فرمائے ہیں۔آپ نے علم لسانیات پر ’’ہند آریائی اور اردو‘‘ تحقیقی مقالہ لکھا جو ۱۹۸۶ میں کتابی شکل میں شائع ہوا اور اس کے تحقیقی معیار، اہمیت اور پذیرائی کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ گلبرگہ یونیورسٹی، بنگلور یونیورسٹی اور عثمانیہ یونیورسٹی نے اس کتاب کو ایم اے (لینگویجس) کے نصاب میں داخل کیا۔ آپ بلند پایہ شاعر تھے اور اساتذہ سخن تھے اور اپنے کلام میں ’’سیفی‘‘ تخلص کرتے تھے۔ زیادہ رجحان حمد باری تعالیٰ ،نعت شریف اور منقبت اہل بیت و بزرگان دین رہتا۔جگر گوشہ امام حسین علیہ السلام اور شہزادہ امام علی ابن موسیٰ رضا علیہ السلام ڈاکٹر سید محمد حمید الدین حسینی رضوی قادری شرفیؒ ۶؍شعبان المعظم م ۱۰؍مارچ ۲۰۲۲ء کو اپنے مالک حقیقی سے جا ملے۔اجلاس کے اختتام سے قبل بارگاہ رسالت پناہی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں سلام حضرت تاج العرفاءؒ پیش کیا گیا۔ ذکر جہری اور دعاے سلامتی پر آئی ہرک کا’’۱۵۶۵‘‘ واں تاریخ اسلام اجلاس تکمیل پذیر ہوا۔ الحاج محمد یوسف حمیدی نے آخر میں شکریہ ادا کیا