حضرت سیدہ بی بی آمنہ علیھا السلام نسب، شرف اور مقام کے اعتبار سے اپنے وقت میں سب سے زیادہ افضل
اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا ( آئی ہرک) کا ’’۱۵۶۶‘‘ واں تاریخ اسلام اجلاس۔پروفیسرسید محمدحسیب الدین حمیدی کا لکچر
حیدرآباد ۔٢٥/فبروری( پریس نوٹ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جد امجد حضرت عبد المطلبؓ تجارتی غرض سے ایک مرتبہ یمن گئے ہوئے تھے۔ وہاں انھیں ایک یہودی عالم ملاجس نے حضرت عبد المطلبؓ میں کچھ نشانیاں دیکھی جو اس نے نبی آخر الزماں (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے متعلق پڑھ رکھی تھی۔ اس یہودی عالم نے حضرت عبدا لمطلبؓ سے نسب کے متعلق سوالات کئے اور پھر آپ کی اجازت سے آپ کے چہرہ مبارک کا معائنہ کیا اور کہا کہ ”میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ کے ایک ہاتھ میں نبوت ہے اور دوسرے میں سلطنت۔ اور یہ دونوں چیزیں ہمیں بنو زہرہ کے خاندان(کے ساتھ آپ کے رشتہ داری پیدا کرنے) میں نظر آرہی ہے”۔ ایک روایت میں اس طرح آیا ہے کہ اس عالم نے کہا کہ ”یہ دونوں چیزیں (نبوت اور سلطنت) مجھے دونوں منافوں (یعنی مناف نامی آدمیو ں) کے خاندانوں میں نظر آر ہی ہے”۔ یعنی حضرت عبد مناف بن قصیٔ جو حضرت عبد المطلب کا خاندان تھا اور حضرت عبد مناف بن زہرہ جو حضرت سیدہ بی بی آمنہ کا گھرانہ تھا۔حضرت عبد المطلب جب مکہ واپس آئے تو انھوں نے اپنے چہیتے فرزند حضرت سیدنا عبد اللہؑ کے لئے بنی زہرہ کے سردار حضرت وہب بن عبد مناف زہری کی صاحبزدای حضرت سیدہ بی بی آمنہ کا رشتہ مانگا جسے قبول کر لیا گیا۔ حضرت وہب بن عبد مناف بنی زہرہ کے سردار تھے اور اپنے نسب اور شرف کی وجہ سے معزز تھے۔ اپنے وقت میں حضرت سیدہ بی بی آمنہ قریشی عورتوں میں نسب، شرف اور مقام کے اعتبار سے سب سے زیادہ افضل خاتون تھیں۔حضرت سیدنا عبد اللہؑ اور حضرت سیدہ بی بی آمنہؑ کا نکاح ہو گیا۔ حضرت سیدہ بی بی آمنہ ؑ کا ارشاد مبارکہ ارباب سیر نے نقل کیا ہے، فرماتی ہیں کہ ”ایک مرتبہ جب کہ میں نیم خوابی کے عالم میں تھی توایک نوید مجھے سنائی گئی کہ تم تمام انسانوں کے سردار اور ختم المرسلین(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی ماں ہو”۔یہ سعادت اور بزرگی جس کے لئے گذشتہ دور میں ہر قوم آرزو مند رہی اللہ تعالیٰ نے اسے بنی ہاشم اور بنی زہرہ کے مقدر میں لکھی تھی۔پروفسیر سید محمد حسیب الدین حمیدی جانشین شہزادہ امام علی موسیٰ رضاڈاکٹر سید محمد حمید الدین شرفی ؒ نے آج صبح ١٠ بجے ”ایوان تاج العرفاء حمیدآباد” واقع شرفی چمن ،سبزی منڈی قدیم میںاسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا (آئی ہرک) کے زیر اہتمام منعقدہ ‘١٥٦٦’ویں تاریخ اسلام اجلاس کے پہلے سیشن میں سیرت سید کونین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر لکچرمیں ان حقائق کا اظہار کیا۔ ١٢ بجے دن جامع مسجد محبوب شاہی مالاکنٹہ روڈ روبرو معظم جاہی مارکٹ میں منعقدہ دوسرے سیشن میں پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی نے انگلش لکچر سیریز کے ضمن میں حیات طیبہؐ کے مقدس موضوع پراپنا ١٢٩٠ واں سلسلہ وار لکچر دیا اورایک مہاجر ایک انصاری سلسلہ کے تحت صحابی رسول مقبولؐ حضرت ابو سعیدخدری ؓکے احوال شریف پر لکچر دئیے۔اپنے لکچر کے دوسرے حصہ میں پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی نے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مدینہ منورہ رونق افروزی کے وقت حضرت ابو سعید خدری ؓدس سال کے تھے۔عقبہ اولیٰ کے بعد آپ کے والدین اسلام لا چکے تھے لہذا گھر کے دیندار ماحول اور ہجرت کے بعد سے مسلسل دس سال تک حبیب کبریا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی صحبت مبارکہ نے ان کے سارے وجود کو یقین و ایمان کے انوار سے تابناک بنا دیا تھا۔صرف تیرہ برس کی عمر میں جذبہ ایمان اور شوق جہاد نے حضرت ابو سعید خدری ؓکو غزوہ احد میں لاکھڑا کیا تھا وہ اپنے والد حضرت مالک بن سنانؓ کے ساتھ مجاہدین کی صف میں شامل ہو گئے انھیں اپنے دراز اور مضبوط بازووئوں پر بڑا اعتماد تھا لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انھیں کمسنی کے باعث شریک جنگ ہونے کی اجازت نہ دی ۔البتہ معرکہ مصطلق میں شرکت کا موقع ملا، پھر مسلسل کئی سرایا اور غزوات میں سیف کے جوہر دکھاے۔ حدیبیہ، خیبر، فتح مکہ، حنین، تبوک اور اوطاق کے مواقع پر انھوں نے اپنی حوصلہ مندی، شجاعت اور مہارت حرب کے ذریعہ اپنی موجودگی کا گہرا اثر چھوڑا۔انھیں بچپن سے لکھنے پڑھنے سے لگائو تھا یہی وجہ ہے کہ مسجد نبوی ؐ میں درس قرآن کے حلقوں میں پابندی سے شریک ہوا کرتے اورعلوم قرآن و حدیث سے مالامال ہوئے۔کلام اللہ کے زبردست واقف کار اور اخلاق نبویؐ کے ہر نورانی پہلو کا گہرائی کے ساتھ مطالعہ و مشاہدہ کرنے والی عظیم ومحترم شخصیات میں نمایاں درجہ رکھتے تھے۔ یہی سبب ہے کہ مہاجر و انصار صحابہ میں کتاب سنت کے زبردست عالم مانے جاتے تھے ان کی مرویات گیارہ سو سے متجاوز ہیں۔حضرت ابو سعید خدری ؓمقررہ اوقات میں درس دیا کرتے تھے۔ آپ کے حلقہ درس میں لوگوں کا ہجوم آپ کے فیضان علم کی خود ایک دلیل ہے۔پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی نے بتایا کہ حضرت ابو سعید خدریؓ کا نام سعد بن مالک تھا ۔ وہ مدینہ کے قبیلہ خزرج سے تعلق رکھتے تھے ان کا خاندان خدرہ سے موسوم تھا۔ حضرت ابو سعید خدریؓ کے دادا سنان بڑے با اثر اور اپنے علاقہ کے رئیس تھے۔حضرت ابو سعیدؓ نے مسجد نبوی شریف کی تعمیر میں پر جوش حصہ لیا اورہمیشہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اقتداء میں نمازکی ادائیگی کا شرف پایا۔ذات نبویؐ کے ساتھ والہانہ محبت و وابستگی کا اثر تھا کہ پوری زندگی اتباع رسالت ؐمیں گذری۔ خلاف سنت کوئی عمل گوارا نہ تھا۔ حدیث شریف بیان کرنے میں بڑی احتیاط فرماتے۔ نہایت صاف دل اور حق گو تے۔اللہ و رسولؐ کی اطاعت اور دین و شریعت کے معاملہ میں کبھی سمجھوتہ نہیں فرمایا۔حضرت ابو سعید خدری ؓکی زندگی حقیقی معنوں میں سادگی اور بے تکلفی کا نمونہ تھی۔ اس کے باوجود یتیم بچوں کی پرورش کا بڑا اہتمام کرتے ان پر خوب خرچ کیا کرتے۔ کشادہ دست تھے سوال کرنے والے کو خالی واپس نہ کرتے خود سوال کرنے سے احتراز کرتے۔ بچپن میں والد کی شہادت کے بعد فاقہ کشی کی نوبت آگئی تھی پیٹ پر پتھر باندھ لیا کرتے تھے ایک مرتبہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر تھے۔ صبر کے موضوع پر خطبہ مبارکہ سنا سوال کرنے یا مانگنے کے بجائے محنت، صبر و توکل کی ہدایت پر عمل پیرائی کے ارادے سے اٹھے اور اس پر ایسا قائم رہے کہ اللہ تعالی نے خوب نواز دیا یہا ں تک کہ انصار صحابہ میں سب سے بڑھ کر دولت مند اور صاحب ثروت بن گئے۔ ٧٤ھ میں بہ عمر٨٤ سال وفات پائی اور بقیع شریف میں دفن کئے گئے۔اجلاس کے اختتام سے قبل بارگاہ رسالت پناہی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں سلام حضرت تاج العرفاء پیش کیا گیا۔ ذکر جہری اور دعاے سلامتی پر آئی ہرک کا”١٥٦٦” واں تاریخ اسلام اجلاس تکمیل پذیر ہوا۔ الحاج محمد یوسف حمیدی نے آخر میں شکریہ ادا کیا۔