Shahzadah Musa Raza

شہزادہ امام علی ابن موسیٰ رضا علیہ السلام 

   سید السادات ڈاکٹر سید محمد حمید الدین حسینی رضوی قادری شرفی رحمۃ اللّٰہ علیہ   

Shahzadah Imam Ali Musa Raza (Alaihissalaam)

Dr Syed Mohammed Hameeduddin Hussaini Razvi Quadri Sharafi (RahmathUllah Alaihi)

سفر شام کے دوران حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم سے بے شمار معجزات کا ظہور۔ میسرہ ؓملازمِ بی بی سیدہ خدیجہ علیہا السلام شاھد

اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا ( آئی ہرک) کا ’’۱۵۹۰‘‘ واں تاریخ اسلام اجلاس۔پروفیسرسید محمدحسیب الدین حمیدی کا لکچر

حیدرآباد ۔۱۱؍اگسٹ( پریس نوٹ)سفر شام کے دوران میسرہ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے کئی معجزات ظاہر ہوتے ہوئے دیکھا۔ایک مرتبہ میسرہ ؓنے دیکھا کہ ان کے دو اونٹ بہت زیادہ کمزوری کی وجہ سے قافلہ سے پیچھے رہ جاتے تھے۔ انھوں نے حضورپاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے اس کا ذکر کیا۔ حضورپاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ان اونٹوں کے پاس تشریف لائے اور ان پر ہاتھ رکھا۔ اونٹ اسی وقت بالکل ٹھیک ہو گئے اور اتنا تیزچلے کہ قافلہ کے اگلے حصہ میں پہنچ گئے اور (چلنے میں چستی اورجو ش کا اظہار کرنے کے لئے) منہ سے آواز نکالتے جاتے تھے۔ حضورانورصلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی موجودگی کی برکت کا اثر ایسا ہواکہ قافلے نے اپنا مال فروخت کیا اور اتنا نفع کمایا کہ اس سے پہلے اتنا نفع کبھی نہیںکمایا تھا۔ چنانچہ میسرہ ؓنے کہا کہ ’’اے(حضرت) محمد! (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) ہم چالیس سال سے تجارت کر رہے ہیں لیکن اتنا نفع ہمیںکبھی حاصل نہیں ہوا جتنا آپ ؐ کے ذریعہ ہوا ہے‘‘۔ مکہ پہنچ کر میسرہ ؓنے سفر کے تمام واقعات حضرت سیدہ بی بی خدیجہؑ کو بتا دی۔ورقہ بن نوفل، حضرت سیدہ بی بی خدیجہ ؑ کے چچازاد بھائی تھے اور آسمانی کتابوں کا بخوبی علم رکھتے تھے۔ جب ان کو سفر شام کے واقعات معلوم ہوئے تو انھوں نے کہا کہ ’’(حضور) محمد(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) ضرور اس امت کے نبی ہیں اور میں جانتا ہوں کہ ضرور اس امت میں نبی ہونے والا ہے اور یہی زمانہ اس نبی کے ظہور کا ہے۔ میں اس نبی کا اشد انتظار رکھتا ہوں‘‘۔ اس شوق کی حالت میں ورقہ بن نوفل نے ایک قصیدہ بھی لکھا۔ان حقائق کا اظہار پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی جانشین شہزادئہ امام علی موسیٰ رضاؑڈاکٹر سید محمد حمید الدین شرفی  ؒ نے آج صبح ۱۰ بجے ’’ایوان تاج العرفاء حمیدآباد‘‘ واقع شرفی چمن ،سبزی منڈی قدیم اور ۱۲ بجے دن جامع مسجد محبوب شاہی مالاکنٹہ روڈ روبرو معظم جاہی مارکٹ میںاسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا (آئی ہرک) کے زیر اہتمام منعقدہ ’۱۵۹۰‘ویں تاریخ اسلام اجلاس میں سیرت سید کونین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر لکچرمیں کیا۔ صاحبزادہ سیدمحمدعلی موسیٰ رضاحمیدی نے حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی زندگی کے منور پہلوئوں پر شرف تخاطب حاصل کیا۔پروفیسرسید محمد حسیب الدین حمیدی نے ایک آیت جلیلہ کا تفسیری ، ایک حدیث شریف کا تشریحی اور ایک فقہی مسئلہ کا توضیحی مطالعاتی مواد بھی پیش کیا۔انھوں نے انگلش لکچر سیریز کے ضمن میں حیات طیبہؐ ہی کے مقدس موضوع پراپنا ’۱۳۱۴‘ واں سلسلہ وار لکچر دیا اورسیرت آئمہ اہل بیت ؑ کے تسلسل میںحضرت سیدنا امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کے احوال شریف پر لکچر دئیے۔اپنے لکچر کے دوسرے حصہ میں پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی نے بتایا کہ حضور امام موسیٰ ابن جعفر الکاظم علیہ السلام آئمہ اہل بیت میں ساتویں امام ہیں۔ آپ حضرت امام جعفر الصادق علیہ السلام کے صاحبزادے ہیں۔۷؍صفر المظفر بروز یکشنبہ ۱۲۸ھ بمقام ابوا جو مکہ اور مدینہ منورہ کے درمیان ہے، آپ کی ولادت ہوئی۔آپ کے والد ماجد حضور امام جعفر صادق  ؑاور آپ کی والدہ ماجدہ حضرت حمیدہ البربریہؓ حج کی ادائیگی کے بعد مدینہ منورہ واپس ہو رہے تھے کہ آپ کی ولادت ہوئی۔ اسی وجہ سے طبری نے آپ کی ولادت ذی الحجہ میں بتلائی ہے۔آپ کے القاب میں باب الحوائج، العبد الصالح اورالکاظم بہت مشہور ہیں۔ عباسی خلفہ المنصور، المھدی،  الھادی اورہارون الرشید آپ کے ہم عصر تھے۔ تقریباً سبھی نے آپ کو کسی نہ کسی طرح سے تکلیف دی۔ مگر المھدی اور ہارون الرشید نے آپ کو بار بار قید کروایا اور حراست میں رکھاجس کی وجہ سے ۱۸۳ھ میں بغداد میں آپ کی شہادت ہوئی۔امام موسیٰ کاظم علیہ السلام انتہائی متقی، پرہیزگار، صالح اور صابر تھے۔غصہ کو ضبط کرنے کی وجہہ سے آپ کو الکاظم کہا جاتا ہے۔آپ سے بے شمار احادیث روایت کی گئی ہیں۔ابوعمران المروزی نے مسندالامام موسیٰ بن جعفرعلیھم السلام میں آپ کی احادیث کو جمع کیا۔عزیز اللہ عطاردی نے بھی آپ سے ۳۰۰۰ سے ز ائداحادیث کو مسند الامام الکاظم میں روایت کیا۔ آپ کے مناظرے، عباسی خلفاء، یہودی، عیسائی اور مختلف مکاتب فکر کے علماء کے ساتھ بہت مشہور ہوئے ۔ان مناظروں میں آپ نے ان سب کو شکست دی۔اکثر نمازمیںآپ زارو قطار روتے اور سجدوں میں آپ کی دعا ہوتی ’’یا اللہ! اگر آپ کے بندہ کا گناہ بہت بڑا ہے تو پھر آپ کا معاف کرنا بہترین ہے‘‘۔ ’’یا اللہ! میں موت کے وقت آپ سے راحت مانگتا ہوں اور روز حساب معافی‘‘۔امام موسیٰ الکاظم علیہ السلام قیدخانہ میں بھی مولیٰ تعالیٰ کا ہر وقت شکر ادا کرتے اور عبادت میں مصروف رہتے۔عباسی خلفاء کو اکثر اہل بیت سے خوف رہتا۔ واقعہ فخ جس میں بے شمار حسنی سادات شہیدہوئے تھے، آپؑ کے دور میںہوا۔امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی زندگی کا ایک بہت بڑا حصہ قیدخانہ میں گذرا۔ امام موسیٰ کاظمؑ کے ماننے والوں میں بہلول دانا، البشر الحافی وغیرہ بہت مشہور ہیں۔ امام موسیٰ الکاظم علیہ السلام کی شہادت السندی بن شاھک کے قید خانہ میں بعض روایات کے مطابق ہارون رشید کے حکم پر زہر دینے سے ہوئی۔ ۲۵؍ رجب المرجب ۱۸۳ھ آپ کی شہادت کی تاریخ مشہور ہے۔ ایک روایت کے مطابق  آپ کے ۱۸ فرزند تھے اور ۱۹ دختران تھیں۔ آپ کے صاحبزادے حضرت علی ابن موسیٰ الرضا علیہ السلام آپ کے بعد امام ہوئے۔اجلاس کے اختتام سے قبل بارگاہ رسالت پناہی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں سلام حضرت تاج العرفاءؒ پیش کیا گیا۔ ذکر جہری اور دعاے سلامتی پر آئی ہرک کا’’۱۵۹۰‘‘ واں تاریخ اسلام اجلاس تکمیل پذیر ہوا ۔الحاج محمد یوسف حمیدی نے آخر میں شکریہ ادا کیا۔